خواتین و حضرات ایک اہم اعلان سنئیے۔ عید کا چاند نظر آ گیا ہے۔ عیدالفطر کل ہو گی۔ کیا ہی خوبصورت الفاظ کا مجموعہ ہے۔ مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے سنائی دینے والا یہ اعلان پورے علاقے میں خوشی کا باعث بنتا تھا۔ لیکن سننے کو اب کان ترس گئے۔ گاؤں، دیہات میں ممکن ہے یہ روایت آج بھی زندہ ہو۔ سو فیصد امکان نہیں۔ ماڈرن ہونے میں اب دیہات بھی شہروں سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں۔ روایتیں تو اور بھی بہت سی ہیں، جو ماضی بعید کا قصہ ہوئیں۔ عید کا موقع ہے، اس لئے کچھ پرانی یادیں اور روایتیں زیادہ ہی ستا رہی ہیں۔
اب روزے تیس ہوں گے یا انتیس؟ اس پر فواد چوہدری اور رویت ہلال کمیٹی میں تو جو ٹھنی سو ٹھنی۔ ہم بچوں کا رویت ہلال کمیٹی سے اختلاف کا یہ معاملہ سالوں پر محیط ہے۔ اور ایسے میں کس کی مجال جو ان معصوم طوفانوں کے سامنے رکاوٹ بنے۔ پوری دنیا ایک طرف، ہم بچوں کی فوج ایک طرف۔ انتیس روزے کی افطار کے ساتھ ہی ہم تمام بچے اور گھر کی چھت۔ مسجد کے منبر سے چاند کا اعلان ہو یا نا مگر ہمیں غائبانہ چاند نظر آ ہی جاتا تھا۔ اب کسی بچے کو یہ چاند بہت اوپر، کسی کو بالکل قریب محسوس ہوتا تھا۔ کسی کو مکمل صاف، کسی کو بہت مدہم۔ قصہ مختصر، رویت ہلال کمیٹی کی بڑی دوربین بھی اس چاند کو نا دیکھ پاتی تھی جو سب بچوں کی چھوٹی آنکھیں دیکھ سکتی تھیں۔ روزے کیا تیس ہوئے۔ فجر سے افطار تک کا وقت اپنے دلوں سمیت پورے محلے کو یقین دلانے میں گزرتا کہ کمیٹی کے تمام مولانا کو اللہ گناہ دے گا۔ آج تو عید تھی مگر رویت ہلال کمیٹی نے جان بوجھ کر ایک اضافی روزہ رکھوا دیا۔ تیس روزے پورے ہونے پر احتجاج بس ایسے ہی ریکارڈ کرواتے تھے کہ کاغذ کا چاند بنایا اور چھت کے سب سے اونچے حصے پر کھڑے ہوئے اور لہرا لہرا کر اعلان کیا۔
خواتین و حضرات ایک اہم اعلان سنئیے۔ عید کا چاند نظر آ گیا ہے۔ عیدالفطر کل ہو گی۔ کپڑوں کی الماری شاید پورا سال اتنا کھلی نا ہو گی جتنی رمضان المبارک کے چند دن کھلتی تھی۔ بس آتے جاتے چپکے چپکے نئے کپڑے دیکھنے اور ان کو چھو کر روح کو تازہ دم کرنا۔ کسی کو بھی یہ معمولی حرکت محسوس ہو۔ بچوں کے لئے ایک محاذ سے کم نہیں تھا۔ مسلمہ حقیقت ہے سارے سال کے نئے کپڑے وہ خوشی نہیں دلا سکتے جو عید کے دو جوڑے دیتے ہیں۔
امی جان کے تمام بڑے دوپٹے عید کا جوڑا استری ہونے کے بعد ایسے لپیٹے جاتے کہ استری بھی خراب نا ہو اور کسی غیر کو صبح کے آغاز سے قبل ہمارا سوٹ دیکھنا بھی نصیب نا ہو۔ عید کارڈ بالکل اسی طرح لازم تھا جیسے بچوں کے لئے روزہ۔ جب تک خرید نا پاتے روزانہ دیدار کی غرض سے اس اسٹال پر بیس چکر لازم تھے۔ من پسند اداکاروں کے کارڈ بس ایک، دو یا پانچ روپے میں۔ اب اس سے زیادہ اور کیا چاہئیے۔ تمام دوستوں کو کارڈ دینا بھی عزت کے ساتھ منسلک تھا ورنہ طعنہ اب کون سنے۔ میرا ذاتی خیال ہے بچے معصوم فرشتے ضرور ہوتے ہیں لیکن انا کا عنصر بڑوں کی نسبت زیادہ غالب رہتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے، وقت کا دھارا سب بہا لے گیا۔ ریت، رواج، محبتیں، خلوص اور اپنے بھی۔ عید، شبرات بھی بدل گئی۔ ہم بھی وہ کہاں رہے۔
محبت سے تحریر شدہ عید کارڈ کو ہم نے موبائل سے بدل ڈالا۔ پہلے پہل تو فون کالز پر ہی شملہ اونچا ہو جاتا تھا۔ پھر وقت کا دھارا ایسا تیز ہوا کہ اب سیکنڈز سے کم وقت میں لکھا ہوا میسج بھیجنا زیادہ موزوں لگتا یے۔ نا جانے وقت اور تیز ہوا یا ہم تیزی سے خود کو بدل رہے ہیں۔ اب گنتی کے چند لوگ ہی رہ گئے یا جن سے ہمیں کچھ تعلق ہے، انہیں کو عید مبارک یا کسی بھی تہوار کا پیغام بھیجا جاتا ہے۔
اچھا ہے انٹرنیٹ نے دھوم مچا رکھی ہے۔ جب جہاں جو دل چاہا جھٹ پٹ نکال کر دیکھ لیا۔ سارے سال۔ کی طرح عید پر بھی وقت گزارنے کے لئے کچھ خاص میسر آ ہی جاتا ہے۔ مگر سارے سال میں عید کا انتظار، جیب نوٹوں سے کچھا کچھ بھری ہو اور بچوں کے گینگ کا من پسند مووی کرائے پر لا کر دیکھنے کا مزا ہی اور تھا۔ نا جانے وقت کے ساتھ ہم اس قدر کیوں بدل گئے۔ قربتیں، دوریوں میں بدل گئی۔ اپنے، بس نام کے رہ گئے۔ عید خوشی کی بجائے بس ایک تہوار بن گئی۔ جس کی حیثیت ایک چھٹی کے سوا کچھ نہیں رہی۔ کوئی ملے تو سو بسم اللہ وگرنہ ہم پہل کرنے والے نہیں۔
ماڈرن ہونا چاہئے۔ وقت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ مگر انمول روایتیں بھی زندہ رکھنی چاہیے۔ عیدالفطر کی نماز ایک ساتھ مسجد میں ادا ہو۔ کوئی بھکاری گھر کے دروازے سے خالی ہاتھ نا لوٹے۔ گلے لگا کر عیدی دینے میں کس قدر خوشی ہے۔ پل بھر نہیں گھنٹوں خوش گپیاں ہونی چاہیے۔۔ ہمیں ان روایات کا امین رہنا ہو گا۔ اپنی نسلوں میں اس کلچر کو اتارنا ہو گا۔ ان یادوں کو اولاد میں حال کی صورت زندہ رکھنا ہو گا۔ یہی تو خوشی ہے۔ یہی تو اصل عید ہے۔ قارئین کو عید کا کارڈ لکھ کر ماضی کو پھر سے زندہ کر رہی ہوں۔
پیارے قارئین، میری طرف سے آپ اور آپ کے تمام اہل خانہ کو دلی عید مبارک ہو۔
فقط آپکی کالم نگار
ثروت ولیم