چند دن کا انتظار باقی ہے۔ پھر آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام آزاد قیدی جشن آزادی بھر پور انداز سے منائیں گے۔ آزادی کے اس جشن پر کسی کا انداز نہایت مہذب، کوئی چھچھور پن کی تمام حدیں پار کرے گا۔ آنکھوں کو جو سلیقہ سب سے زیادہ بھاتا ہے وہ برقی قمقموں سے مزین راستے، سڑکیں، گھروں پر لہراتا سبز ہلالی پرچم، جھنڈیوں سے آراستہ گلیاں، محلے اور گھروں کی چھتیں ہیں۔ نت نئے بیجز کے اسٹالز اور اسپیکرز پر بجنے والے ترانے رونق کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔
یہاں پر قیدی سے مراد جیل کی سلاخوں کے پیچھے سزا کاٹنے والا مجرم نہیں، بلکہ وہ لوگ ہیں جن میں سے ہر کوئی کسی نا کسی چیز، خواہش اور مجبوری کا قیدی ہے۔ ان پنجروں سے آزادی حاصل کرنا انہیں اس فعل کی طرح لگتا ہے جو ناممکن ہو۔ جہاں کوشش سے پہلے ہی شکست تسلیم کر لی جاتی ہے۔
14 اگست کو سڑکوں پر سرور کے نام پر جو ہاہاکار مچے گا۔ دراصل اس میں آزادی کا جذبہ کم اور اپنی سوچ کے قیدی سب سے زیادہ ہوں گے۔ جنہیں آزادی کے لئے کی گئی جدوجہد کا علم ہو گا، نا مصائب کا۔ ان کی سوچ بس یہی ہے کہ آزادی کا جشن سڑکوں پر فیمیلز کو پریشان کر کے منایا جاتا ہے۔ کاروں پر انڈوں کی برسات اور سڑکوں پر بھنگڑے کے نام پر بندش سے منایا جاتا ہے۔ جان بس یہ کہہ کر چھڑائی جاتی ہے کہ جوان لوگ ہیں۔ خون گرم ہے، جشن اپنے انداز سے منانے دیجئے۔ یہ جوان ہی تھے، جن کا خون ان سے کئی گنا گرم تھا۔ جوش اور ولولہ برق انگیز تھا۔ جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ اپنی پوری جان لگا دی تھی۔ قائد اعظم کی سر پرستی اور رہنمائی میں قوم کو جب آزاد ریاست کی صورت میں انعام ملا، تب تو ایسا کوئی فعل دیکھنے، سننے کو نہیں ملتا۔ اب ان لوگوں سے بڑھ کر اور کسے خوشی ملی ہو گی۔
آزاد ریاست کے آزاد شہری ہونے کے باوجود بھی ہم قیدی ہیں، غلام ہیں۔ جنہیں ہر صورت ایک آقا چاہیے۔ شاید برصغیر کا مزاج ہی یہ ہے باوجود آزادی غلام رہنا زیادہ تسکین دیتاہے۔ اسی لئے تو ہر ایک اپنے سیاسی آقا کا دفاع جم کر کرتا ہے۔ یہ جانتے بوجھتے کہ ان سیاستدانوں کی دال ہمیشہ کالی ہی رہتی ہے۔ حقوق دینے کی بات کر کے سلب کر لیے جائیں، نعرے کھوکھلے ہوں اور دعوے ہوا ہو جائیں لیکن پھر بھی سیاسی لیڈر کی آواز پر لبیک کا نعرہ لگانا، یہ غلاموں کا وطیرہ ہوا کرتا ہے۔
جہاں تک بات ہے پاکستان حاصل کرنے کی، جیتے جاگتے یہ مسلمان اپنی مرضی سے سانس لے سکیں۔ اسلام کے اصولوں پر آزادی سے عمل پیرا ہو سکیں۔ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ان کو نا چرایا جائے، اسی لئے آزادی کی یہ جنگ برسوں لڑی گئی۔ اب جب کہ اس جنگ کو جیتے کئی دہائیاں گزر گئیں، تو ہمیں بطور قوم انداز فکر میں بہت آگے بڑھنا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ جہاں سے چلے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ اب ہمارے اپنے چنے گئے آقا، ہمیں چرا رہے ہیں۔ ہم نے آزادی کو اصل میں جیا ہی کب؟ ہم تو اپنے سیاسی آقاؤں کے حکم کے تابع ہیں۔
آزادی کی یہ نعمت ہر اس شخص کے لئے ہے، جو اس پاک سر زمین کا باسی ہو، پھر چاہے کوئی اکثریت میں ہو یا اقلیت میں۔ گھروں کی چھتوں پر سبز ہلالی پرچم تو لہرا دیا جاتا ہے مگر اس کے رنگوں میں کیا معنی پنہاں ہیں، انکا مقصد کیا ہے، ہم سمجھنے سے قاصر نہیں، دراصل سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔
حال ہی میں رحیم یار خان میں جس طرح دھاوا بول کر اقلیتی برادری کے مندرکو توڑا گیا، کیا اس پر ضمیر ملامت نہیں کرتا؟ ذرا برابر شرمندگی نہیں ہوتی؟ ایک لمحے کو یہ سوچ نہیں آتی کہ کیا یہ ہی رویہ ہونا چاہیے تھا؟ اس ایک غلطی پر جو کسی بچے سے سر زد ہوئی۔ چاہے وہ شرارت کے طور پر ہی کیا گیا۔ ہم نے کیا کیا؟ کیا اسلام یہ درس دیتا ہے کیا حضور اکرمﷺ کی حیات مبارکہ اس سے قطعی مختلف نہیں تھی؟ حدیث شریف میں ارشاد ہے۔
ایک دیہاتی نے مسجد نبوی کے ایک گوشے میں رفع حاجت کر لی۔ مسجد میں موجود تمام لوگوں نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اور دیہاتی کو برا بھلا کہا جانے لگا۔ نبی پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم نے تمام صحابہ کرامؓ کو خاموش کر دیا۔ حتی کہ جب دیہاتی مکمل فارغ ہو چکا تھا، آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کو پانی چھڑک کر صاف کرنے کا حکم دیا اور اس دیہاتی سے نہایت نرم لہجے میں مخاطب ہو کر کہا " مسجد پیشاب کرنے کی جگہ نہیں۔ مسجد میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے اور نماز ادا کی جاتی ہے۔"مسجد ہو، گرجا گھر یا مندر، عبادت گاہ کو گرا دینے کی تکلیف سبھی کو ایک جیسی محسوس ہوتی ہے۔
جب اسلام انہیں تحفظ دینے کی بات کرتا ہے، ہمارے پیارے رسول نے اقلیتوں کو امان دی تو یہ کون لوگ ہیں جو ہر حد سے گزر گئے؟ یہ اس خود ساختہ عقیدے کے قیدی ہیں، جو جسمانی طور پر آزاد مگر ذہنی طور پر قید ہیں۔ یہ اس جہالت کے قیدی ہیں جو شاید کتاب تو پڑھتے ہیں مگر اس کا علم ضمیر کو جھنجھوڑ نے کے لئے استعمال نہیں کرتے۔
پرچم ستارہ وہلال میں سفید رنگ کا ہونا ان اقلیتوں کی حفاظت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ہمارے لوگ ہیں یہ پاکستانی ہیں۔ انہیں بھی سر زمین پر اتنا ہی تحفظ حاصل ہے جتنا ایک مسلمان پاکستانی کو۔ یہ بھی اس آزاد فضا میں کھل کر آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں۔
ہم کون ہیں؟ جو اس بات کو طے کریں، کس کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہیے۔ نبی پاکﷺ کی پوری حیات مبارکہ مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ تحفظ کا احساس زندہ رہنا چاہیے۔ چودہ اگست اور ہلالی پرچم کے اصل معنی سبھی کو معلوم ہونے چاہیے۔ آزادی جیسی نعمت کا لطف سبھی کو اٹھانے دیجیے۔