Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bedhangha Siasi Canvas

Bedhangha Siasi Canvas

پاکستان کی تصویر سیاست کے پیرائے میں ہے، وگرنہ سیاحت ملحوظ ہو تو کیا کہنے۔ پھر صوبہ ہو یا شہر، لبھانے کو بہت کچھ میسر ہے۔ پنجاب کی اپنی ایک خاص پہچان ہے، سندھی ثقافت بے حد حسین، بلوچستان کے نظاروں کا اپنا لطف ہے، خیبر پختون خواہ کی خوبصورتی اپنی جگہ اور گلگت بلتستان کی خوبصورتی پر تو جنت کا گمان ہوتا ہے۔

دوسری طرف سیاست کی تصویر اسی قدر بے ڈھنگی ہے۔ ویسے تو ایک لمبی سیریز تحریر ہو سکتی ہے مگر خلاصہ ہی واضح کرنے کو کافی ہے۔ مینار پاکستان جلسے کے لیے سارا زور لگایاگیا۔ اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل جت گئے، دن رات ایک کر دیا گیا۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ کوئی آر یا پار نہیں ہوا۔ دوسری جانب حکومت بھی برابر کی چوٹ دے رہی تھی۔ جلسے سے ایک ہفتہ قبل کے سیاسی کھیل کا آغاز گندے اور اخلاق سے گرے نا قابل بیان سوشل میڈیا ٹرینڈز کی شکل میں ہوا۔ جس کا مرکز صرف عورت تھی، جو عزت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ پھر چاہے خاندان ہو یا اسلامی معاشرہ۔ مگر کسی ایک سیاسی رہنما نے بھی اخلاقی جرات کا مظاہرہ نہیں کیا کہ سامنے آئے اور لگام ڈال سکے۔

قانون پر عمل داری نہ صرف یقینی ہونی چاہیئے بلکہ نظر بھی آنی چاہیے، تو جو کمزور نظر آیا، بس وہی حکومتی غضب کا شکار ہو گیا۔ اعلان تو یہ تھا کہ جلسے کے لئے جو کیٹرنگ کرے گا، کرسیاں، لائیٹیں یا دیگر سامان دے گا، اس پر ایف آئی آر کٹے گی۔ ایک طرف روزگار نہیں، کھانے کے لالے پڑے ہیں " کرونا" پہلے ہی کاروبار( چھوٹا ہو یا بڑا)، اس کو نگل رہا ہے، ایسے میں جس کا تھوڑا بہت چل رہا ہے، اس کو سیاسی رنگ دے کر حکومت نے دن میں تارے دکھانے کی ٹھان لی۔ قانون تو وہ جو سب کو ایک پیمانے پر تولے مگر طاقتور چونکہ مضبوط ہے تو کمزور کی ہی گردن کاٹی گئی۔

سیاست کی اس جنگ میں گھوڑے تبدیل کر لئے گئے مگر ماضی ہو یا حال دانا لوگ اس بات کے شدید مخالف رہے ہیں، پھر چاہے بادشاہوں کے دور میں لڑی گئی جنگیں ہو یا سیاست کا میدان، مگر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان پورے اعتماد کے ساتھ یہ فیصلہ بھی صادر کر گئے، کہ کس کو اقتدار کی پلیٹ میں کیا دیا گیا یہ بات بعد کے لئے اٹھا رکھتے ہیں، مگر ہر بات میں کرکٹ کا حوالہ دینے والے وزیراعظم کیا نہیں جانتے جو کپتان بار بار ٹیم کو اتھل پتھل کرتا ہے وہ بذات خود کپتان کی ناکامی تصور کی جاتی ہے۔

کینوس پر بکھرے رنگوں میں بس ایک لال رنگ ہر طرف گرا دیا جائے تو تصویر کی شکل کس قدر بھیانک ہو جاتی ہے۔ نیکٹا نے بھی اسی لال رنگ کی جانب واضح اشارہ دیا۔ خدا کا شکر جانیں محفوظ رہیں لیکن تھریٹ الرٹ تو موجود تھے۔ جس میں سرحد پار سے دہشت گردی کا خطرہ سب سے زیادہ تھا۔ مگر جانوں کی پرواہ کئے بغیر جلسہ کرنے کی ٹھانی گئی اور مینار پاکستان کا چناو جہاں تاریخی وہیں حساس بھی۔

کوئی پکنک کی غرض سے تو کسی کو پیٹ کی بھوک جلسہ گاہ لے گئی۔ سالوں سے بند یادگار پاکستان کا تالا بھی توڑا گیا اور عوام بالائی منزل پر پہنچ گئے۔ اسٹیج تک رسائی نہ ہونے پائے کسی ایک بھی کارکن کی، اس لئے بڑی تعداد میں گارڈز تعینات ہوئے جنہوں نے آگے بڑھنے والوں کو قوت بازو کا مزا چکھایا، جلسے میں بد نظمی اور نا خوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے مولانا صاحب کی ڈنڈا بردار فورس نے خوب نظم و ضبط قائم کرنے کی کوشش کی مگر جس تاریخی جگہ کا حوالہ بار بار دے کر لوگوں کو جوش دلایا وہ بس اللہ کے سہارے چھوڑ دی گئی۔

اب اسٹیج پر براجمان سیاسی جماعتوں نے تقریروں کے رنگ بکھیرے۔ جلسے، جلوس، ریلیاں ہونی چاہیے، حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہی اپوزیشن کام ہے مگر سیاست میں بغاوت کا عنصر غالب ہو یہ سرزمین سے وفاداری کی کونسی شکل ہے؟

کبھی آپ ریاست میں ریاست کے وجود پر افسردہ ہوتے ہیں کبھی خود ہی لوگوں کو بغاوت پر اکسا تے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا یہ کہنا " آنے والے دنوں میں میں ملک میں انارکی دیکھ رہا ہوں " کیا لوگوں کو فہم نہیں آپ کس طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اب نعرے لگا دیے گئے "وزیراعظم نواز شریف" کے۔ نا جانے کیوں اور کس حیثیت میں؟ اللہ بھلا کرے خواجہ سعد رفیق کا جنہوں نے صورتحال کو سنبھالااور بات دلوں کے وزیراعظم نواز شریف پر پلٹ دی۔

آزاد عدلیہ، غیر سیاسی پولیس اور غیر جانبدار سول افسران کا مطالبہ کرنے والے یہ بتائیں گے کہ جسٹس قیوم جیسی عدلیہ کیا ان کے نزدیک آزاد تھی؟ فواد حسن فواد جیسی بیوروکریسی کیا غیر جانبدار تھی یا سینکڑوں پاکستانیوں کی حفاظت پر صرف ایک پولیس اہلکار مامور تھا اور سیاسی خاندان کے لیے پوری فورس غیر سیاسی تھی؟ کون اقتدار میں آئے گا؟ کون نہیں، جس ووٹ کو عزت دلانے نکلے ہیں، خدارا انہیں یہ فیصلہ کرنے دیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے عمران خان کے خلاف چلنے والی اس تحریک کا نشانہ کوئی اور ہے۔

نوٹ: پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد اس تبدیلی سے نالاں ہے جس نے ان سے روٹی، روزگار، سکون سمیت نام نہاد سہولت کی تمام چیزیں چھین لی ہیں۔ کرونا ایک حقیقت مگر کب تک اس کی آڑ میں تحریک انصاف کی حکومت چھپتی رہے گی!