اندھیرا بہت گہرا ہوتا چلا جا رہا تھا۔ گھڑی دیکھنے پر وقت کا اندازہ ہوا۔ قریب ہے، کہ چند سیکنڈز میں رات کے پورے بارہ بج جائیں گے۔ نیند ہے کہ آنکھوں سے کوسوں دور۔ باوجود اس کہ، کہ بدن پورا دن کام کی تھکان سے چور ہے۔ نیند کا ایک آسان حل تھا، تھوڑا مغز سوشل میڈیا پر لگایا جائے۔ پھر کب ذہن نیند کے گھوڑے پر سوار ہو جائے۔ لیکن نتائج توقع کے برعکس برآمد ہوئے۔ ایک کے بعد دوسری اور پھر نا جانے کتنی پوسٹس کھنگال دیں۔ فیس بک پیج پر کچھ روز قبل مشہور سوشل میڈیا اسٹار رحیم پردیسی المعروف نسرین(نسرین انکے کردار کا نام ہے جو وجہ شہرت ہے) کی اسٹوری دیکھی۔ خیر سے والد جیسے اعلی مرتبہ پر فائز ہوئے۔ چاہنے والوں نے مبارک باد کے پیغامات بھیجے۔ دیکھ کر اچھا لگا۔ مگر یہ کیا؟ خلاف توقع آج رحیم پردیسی کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں ہیں۔ وجہ بننے والے عناصر نے میرے کچھ پرانے زخموں کو تازہ کر دیا۔ اور یہ ویڈیو ہی میری آنکھوں سے نیند دور کرنے کی اصل وجہ بنی۔
چند مہینے قبل، جس خوشی کا شدت سے انتظار تھا وہ میرے بیٹے کی ولادت تھی۔ میری مکمل صحت اور ڈاکٹروں کی رائے اس بات کی گواہی تھی کہ اللہ کی مرضی سے سب خیریت رہے گی۔ لیکن شاید پہلی بار والدین بننے کی خوشی میں ہم سب اس قدر شاد ہوتے ہیں کہ مسیحائی اور قصائی میں فرق سمجھ نہیں پاتے۔ ایک مہنگے، بڑے اسپتال اور پیسوں کی پرواہ کئے بغیر میری طرح رحیم پردیسی بھی شاید قصائی کے ہتھے چڑھ گیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مسیحائی کے لبادے میں اس قصائی نے رحیم پردیسی کی بیوی کو نشانہ بنایا جبکہ میری طرف نشانہ بنا، میرا معصوم بیٹا۔
ایک سینئر ڈاکٹر(قصائی) سے اس قدر سوال جواب کیوں؟ معاملہ پیچیدہ ہے ماں اور بچے کے لئے محفوظ رہے گا کہ بڑا آپریشن کر دیا جائے۔ مگر خدا کے کاموں میں کس کا دخل۔ رحیم پردیسی کی اولاد نارمل طریقے سے دنیا میں آنا تھی سو آ گئی۔ ڈاکٹر نے جو مال پانی الگ سے بنانا تھا اس کا کیا؟ سزا ملی۔ (اس کے لیے آپ رحیم پردیسی کی ویڈیو دیکھ سکتے ہیں)
سب خیریت ہے۔ بچے کی صحت بھی اچھی ہے۔ انشاء اللہ سب نارمل ہو گا۔ ہوا بھی ایسا۔ لیکن ایک بڑے اسپتال سے اگر سب نارمل ہونا ہے تو مال کیسے بنے گا۔ بچے ایسے ہی صحت مند جاتے رہے تو نرسری کے کاروبار کا کیا ہو گا؟ لہذا، میرا بچہ ایک پرائیویٹ اسپتال میں پیدائش کے فورا بعد نرسری میں اس لئے شفٹ کر دیا گیا کہ اسپتال کے چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے مطابق میرے بیٹے کو پیدائش کے ساتھ ہی فٹس(جھٹکوں کی بیماری) ہے۔ اورچند دن میں لاکھوں کا بل بنا ڈالا۔ دن کے کئی انجیکشن، اور نیند کے ایسے خطرناک سیرپ جن سے کسی بھی بچے کی موت یا کومہ میں جانے کے شدید امکانات ہیں، (تحقیق کرنے پر معلوم ہوا) اب تک ناجانے کتنے بچوں پر یہ ظلم ڈاکٹر صاحب کر چکے ہیں۔
گنتی کے ان چند قصائیوں میں اصل مسیحا(ڈاکٹر) مل ہی جاتے ہیں۔ رحیم پردیسی کو اپنی بیگم اور مجھے میرے بیٹے کے لئے یہ مسیحا مل ہی گیا۔ گھڑی اب رات کے ڈیڑھ بجا رہی ہے۔ ماضی کی اس تکلیف کا ہر ایک لمحہ گنتی کی ان چند سطروں کو ہی تحریر کرنے کی اجازت دے سکا۔ ان سب باتوں کا حاصل کیا؟ ساری صورتحال کا ذمہ دار کون؟ اس مافیا کی جڑیں اس قدر گہری اور مضبوط کیوں؟ شاید ہم، یہ قصائی کسی عام کمزور پر چھری کیوں چلائے گا۔ جو آسامی ان عالیشان اسپتالوں کو افورڈ کر سکتی ہے وہی تو اصل ہدف ہے۔ کوئی بیچارا ہلکی جیب سے ان کی طرف دیکھے گا بھی کیوں۔ جناب کرونا وائرس نے ہمارے اندر سرایت ہو گا، جو در حقیقت ڈاکٹر بارے ہمارے ذہنوں میں اتر چکا ہے۔ جو اسپتال پرائیویٹ ہے وہی اچھا، ڈاکٹر بھی اسی کا قابل بھروسہ ٹھہرتا ہے۔ جس ڈاکٹر کی ڈیلنگ اچھی اور تھوڑی گٹ پٹ انگلش میں کر لیتا ہو وہی مستند۔ کسی ڈاکٹر کا کلینک اگر بچوں سے متعلق ڈیکوریٹ ہے، ایئر کنڈیشنز کی سہولت ہے تو جانے کے قابل ہے۔ جس کے پاس یہ سہولیات نہیں، لباس بھی سادہ ہے۔ دیکھنے میں بس نارمل ہو اسے ہمارے دماغ میں سرایت کر جانے والا وائرس ڈاکٹر تسلیم ہی کہاں کرتا ہے۔ اب گھڑی رات کے تین بجانے کو تیار ہے مگر نا رکنے والی سوچ کے اس تسلسل نے ذہنی طور پر تھکن سے مزید چور کر دیا ہے۔ کمرے میں ایک نظر دوڑانے پر نگاہیں اپنے بیٹے پر ٹھہر گئیں ہیں۔
الحمدللہ، زندگی اور صحت سے بھر پور میرا بیٹا آج میرے پاس ہے جس کے لئے میں اللہ کے بعد اگر ساری زندگی کسی کی مشکور رہوں گی تو وہ چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر شکیل ہیں جو حقیقت میں میرے لئے ایک مسیحا ثابت ہوئے۔ جس دن بحیثیت پاکستانی ہم اپنی ذمہ داریاں جان گئے۔ سوشل میڈیا پر انتشار، جھوٹی خبریں پھیلانے کی بجائے مثبت انداز میں اپنی آواز بلند کرنا سیکھ گئے۔ اس دن ایسے مافیاز کے پائوں لڑکھڑا جائیں گے۔
نوٹ:کسی بھی قاری کو کالم کے کسی بھی موڑ پر اگر ایسا تاثر ملا یا خود سے فرض کر لیا کہ اس تحریر کے کسی حصے میں اسپتالوں میں موجود ناہل نالائق ڈاکٹرز یا دوسرے قصائیوں کی موجودگی کا ذمہ دار میں عمران خان کو ٹھہراوں گی تو وہ میری معذرت قبول کریں۔ کیونکہ ہر قسم کے مافیا کو نکیل ڈالنے کی ذمہ داری وزیراعظم یا حکومت کے کندھوں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ اپنے حصے کی جنگ ہمیں خود لڑنا ہو گی۔