خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چوبیس لاکھ مربع میل پر حکومت کی۔ آپ ؓ کا فرمان ہے:اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر(رضی اللہ عنہ) سے اس بارے پوچھا جائے گا۔
"کوئی بھوکا نہ سوئے " ریاست ہی اس کی ذمہ دار ہے، باری تعالٰی جس کو بھی اقتدار کے منصب پر فائز کرتا ہے، اس کا اولین فرض خلق خدا کے حقوق پورا کرنا ہے۔ تحریک انصاف حکومت نے بھی یہی بیڑا اٹھایا کہ دو وقت کی روٹی کے ذریعے ان لوگوں کا بوجھ اٹھایا جائے، جو اس مہنگائی میں ضروریات زندگی کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔
پہلے پورے پاکستان میں پناہ گاہیں، بعد ازاں پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے لنگر خانے، اب کچن ٹرک منصوبے کا اجرا، اچھے اقدامات ہیں۔ مگر کیا وزیراعظم عمران خان اس بات سے ناواقف ہیں کہ حکومتیں ایسے مضبوط نہیں ہوا کرتیں۔ حکومت کی مضبوطی معاشرے میں تبدیلی سے مشروط ہے، جو آپ نہیں لا سکے۔ جو کام تحریک انصاف کی حکومت کر رہی ہے، یہ اور ان سمیت بہت سے کام کہیں بہتر انداز میں پرائیویٹ سیکٹر فی سبیل اللہ کر رہے ہیں۔
حکومت اور نجی این جی اوز کے درمیان فرق کا حاشیہ باریک نہیں، بلکہ بہت واضح ہوتا ہے، جسے برقرار رہنے دیجئے۔ جو کام ریاست کی پہلی ترجیح ہونا چاہئے وہ تو تقریبا تین سال ہونے کو ہیں ہوتا نظر نہیں آتا۔
"انصاف" یہی وہ پہلا کام تھا، جو آج تک نہ ہو سکا۔ انصاف لوگوں کی دہلیز پر پہنچانا حکومتوں کا کام ہے۔ کسی فرد کے ساتھ زیادتی نہ ہو کسی کا ناحق حق نہ مارا جائے۔ مظلوم کی داد رسی ہو۔ ظالم کو کچلا جائے۔ ایسی کوئی صورت اب تک نظر نہیں آتی۔
اداروں میں " اصلاحات "کے بغیر سسٹم کا مضبوط ہونا ایک خواب ہے، شاید عوام خیبر پختون خواہ کی صورتحال دیکھ کر ایک بار پھر دھوکا کھا گئی۔ جب اپنا پوسٹر بوائے ناصر درانی ہی کھٹک گیا تو کون سی تبدیلی۔ پولیس کا محکمہ برباد۔ بیورو کریسی حکومت کی بجائے شریف خاندان کی تابعدار ہے۔ ایسے میں سونے پر سہاگا پنجاب کا وزیر اعلٰی۔
حکومت کا کام ہے معیاری تعلیم عام ہو۔ بچوں کو سکولز کی جانب راغب کیا جائے۔ حوصلہ افزائی کی خاطر وظائف دئیے جائیں۔ حیرت کیا ہو، سکتے میں جانے کو بس اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ تعلیم کے لئے جو بجٹ مختص تھا، اس میں سے آدھا بھی خرچ نہیں ہو سکا۔
"مہنگائی " جس پر قابو پانا حکومت کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دنیا بھر حتی کہ بھارت میں بھی اس مقدس مہینے رمضان کی آغاز پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں خاص رعایت دی جاتی ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مافیا اور منافع خور آستین چڑھائے عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہے۔ شبہ نہیں حکومت مہنگائی کو نہیں، مہنگائی حکومت کو کنٹرول کر رہی ہے۔ جدید الفاظ میں مافیا نے عمران خان اور پوری کابینہ کو گھیر رکھا ہے۔
اہم ترین مسئلہ غربت کا ہے، جو خطرناک سطح پر کھڑا تبدیلی کا منہ چڑا رہا ہے۔ یقینا کرونا وبا نے بری طرح معیشتوں کو تباہ کیا ہے اور ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کے تو بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں، پہلے پہل کام ادھار کی بیساکھی پر تھا اب اس میں بھی توکل مشکل نظر آرہا ہے۔ لیکن سپہ سالار کی فوج ظفر موج میں کوئی مرہم رکھنے والا بھی تو ہو۔ کوئی درد کی دوا تو کرنے والا ہو۔ کوئی گاڑی پٹڑی پر چڑھانے کے سنہری خیالات بھی تو رکھتا ہو۔
غربت بارے الرٹ عالمی سطح پر موجود تنظیموں نے بھی دیا۔ کہ آئندہ سالوں میں اس میں مزید اضافہ ہو گا۔ پورا الزام کرونا پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ تحریک انصاف حکومت کی پالیسیوں نے اس وبا سے قبل ہی لوگوں کے روزگار پر تیز دھار چاقو چلا دئیے تھے۔ سب سے بڑا بحران میڈیا چینلز پر آیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ عمران خان ہی اس میڈیا کے سب سے زیادہ بینیفشری رہے۔ ستم بھی آپ ہی نے کر ڈالے۔ محنت سے دو وقت کی روٹی اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لوگوں کو روزگار چاہیے۔ ہاتھ پھیلا کر رزق لینے سے قدرے بہتر محنت کرنا ہے۔ اس کے لئے ایک راستہ متعین کرنا ہو گا۔ سفر کو تیز رکھنا ہو گا۔ سمت درست کرنا ہو گی۔ وہ ممالک جو دوسری جنگ عظیم اور ایٹمی حملوں کے بعد نہ صرف اٹھے بلکہ ترقی یافتہ کی صف میں آن کھڑے ہوئے ان کے ماڈلز کو پرکھنا ہو گا۔
روایت میں ہے۔ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ سے عرض کی یا رسول اللہ!محتاج ہوں میری مدد فرمائیے- آپ نے فرمایا:اے اللہ کے بندے تم تندرست اور صحت مند ہو۔ محنت مزدوری کر کے کما سکتے ہو۔ اس نے کہا یا رسول اللہ، میرے پاس کچھ نہیں سوائے گھر میں موجود لکڑی کے پیالے کے۔ آپ نے کہا وہ لے آئو۔ آپ نے مجلس میں اس کی بولی دی۔ پہلی آواز ایک درہم، دوسری ڈیڑھ درہم اور آخری آواز دو درہم کی آئی جس پر آپ نے وہ پیالہ فروخت کر دیا۔ بازار سے رسی اور کلہاڑی خرید کر لانے پر فرمایا جنگل سے لکڑی کاٹو اور بیچو۔ ایک ہفتے بعد وہ شخص نبی رحمتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتایا یا رسول اللہﷺ اب میرے گھر میں آٹا ہے، کھجوریں ہیں اور کھانے پینے کو برتن۔
عالی جناب وزیراعظم عمران خان کو اب یہ کون بتائے اور سمجھائے کہ روٹی سالن کا کام نجی فاونڈیشنز اور مخیر حضرات پر رہنے دیں، جو عزت نفس مجروح کئے بنا بخوبی یہ فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ وہ کام کیجئے جو حکومتوں کے کرنے کے ہیں۔