وزیراعظم عمران خان سمیت پوری کابینہ اس بات پر شادیانے بجا رہی ہے کہ قومی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ پر عمران خان نے اپنی عددی اکثریت ثابت کر دی۔ اس اکثریت پر بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ گمان ہے شاید ارکان اس تعداد میں موجود نہیں تھے، جو نمبر بیان ہوا۔ ایسے میں اپوزیشن کو تو بس ایک اور سنہری موقع مل گیا۔
تحریک عدم اعتماد کب؟ کہاں؟ اور کس وقت آئے گی؟ اپوزیشن پارلیمان کو ظاہری اہمیت تو دیتی ہے، مگر اسمبلی فلور پر جب دما دم مست قلندر کرنے کا موقع تھا، اسی دن روٹھ گئی۔ کیا بہتر نہ تھا، دن میں تارے دکھانے کے دعویدار، اسمبلی فلور پر وہ کرتے جو پارلیمنٹ کے باہر کیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کیااعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد، تحریک انصاف پوری سیاسی قوت کے ساتھ حکومت کر پائے گی؟ کیونکہ ملکی تاریخ میں اس سے متعلق کچھ اچھی مثالیں موجود نہیں۔ جن وزراء اعظم نے بھی اعتماد کا ووٹ لیا، وہ زیادہ دیر حکومت نہ کر سکے۔ 1989ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام رہی، مگر چند ہی مہینوں میں ان کی حکومت چلتی بنی۔ 1993ء میں جب نواز شریف نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا، تب وہ بھی بمشکل دو ماہ ہی حکومت کر سکے، اورچلتے بنے۔
عمران خان کے پاس ابھی اڈھائی سال کا عرصہ باقی ہے، عوامی خدمت کے لئے صرف ڈیڑھ سال بچا ہے۔ ایک سال تو اگلے الیکشن کی تیاری میں ہی گزر جائے گا۔ اس عرصہ میں عمران خان کے لئے مزید کتنے سرپرائزز پوشیدہ ہیں؟ یہ وقت اور سیاسی حکمت عملیوں پر منحصر ہے۔
اپوزیشن ایک طرف، مگر اب کپتان کو اتحادیوں کا بڑا چیلنج بھی در پیش ہے۔ اعتماد کا ووٹ دیا، مگر یاد دہانی بھی کروا ئی، اپنے مطالبات اور تحفظات کی بھی دہرائے۔ کھلا اظہار کیا، ایم کیو ایم اور فہمیدہ مرزا نے دل کھول کر رکھا۔ یقیناََ عمران خان کو ادراک ہے، ان تمام مشکلات کا بھی۔ تبھی تو کامیابی کے باوجود اعتماد کچھ متزلزل تھا، جو چہرے سے عیاں تھا۔ اتوار کے روز میرے پروگرام (مقابل)میں ہارون الرشید صاحب نے اس بات کا انکشاف کیا کہ خان پر تین باتوں کا دباؤ شدید ہے۔
1۔ مریم صفدر کو باہر جانے دو۔
2۔ پیپلزپارٹی پرکچھ ہلکا ہاتھ رکھو۔
3۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے عثمان بزدار کو ہٹا دو۔
اس تیسرے نکتہ پر عمران خان کی بجائے اپوزیشن تیزی سے لابنگ کر رہی ہے، اسی پیرائے میں بلاول بھٹو نے حمزہ شہباز سمیت چوہدری برادران سے ملاقات کی۔ یہ الگ بات ہے میڈیا پر ق لیگ سے ملاقات کو بس یوسف رضا گیلانی کی بطور چیئرمین سینیٹ حمایت تک محدود رکھا گیا۔
چوہدریوں نے حکومتی اتحادی ہونے کے ناطے معذرت کے ساتھ اعلی ظرفی کا مظاہرہ تو کیا، لیکن پرویز الہی بہترین سوجھ بوجھ سمیت شارٹ ٹرم پالیسیوں کی بنا پر بھی جانے جاتے ہیں۔
کیا واقعی یہ خوشیاں منانے کا وقت ہے؟ حسب عادت حکومتی وزراء اور عمران خان اس بات پر شاد ہیں۔ کیا یہ نہیں سوچنا چاہیے، کہ نوبت یہاں تک آئی ہی کیوں؟ کل تک جو جان نثار کرنے پر آمادہ تھے، آج ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ کل تک جس کابینہ پر خود عمران خان مغرور تھے آج اس پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔
اپوزیشن پر ارکان اسمبلی کی خریداری کے الزامات بجا، مگر کیا اپنا گریبان نہیں جھانکنا چاہیے۔ عمران خان کے فیصلوں کو لے کر شکووں کی ایک طویل فہرست ہے، جس کا اظہار ان کے وزراء کرتے آئے ہیں۔ اپنی سیاسی زندگی عمران خان کے نام وقف کرنے والوں کا کیا ہوا؟ پارٹی کو مضبوط کرنے والوں کا کیا ہوا؟ ایک کے بعد ایک ٹوٹے دل کے ساتھ یا تو دوری اختیار کر گیا یا خود کپتان نے الگ کر دیا۔ اور ایسے لوگوں کو پارٹی پر مسلط کیا جن کی وفاداریاں پارٹی سے نہیں اپنی ذات سے ہیں۔
توقع تھی، سینیٹ میں اپ سیٹ شکست کے بعد ایک بدلا ہوا عمران خان نظر آئے گا۔ جو جان چکا ہو گا، کہ اہمیت اسی رکن کی ہے جو لاکھوں کی تعداد میں عوام کا ووٹ لے کر ساتھ شامل ہوا۔ جو اپنے شکووں میں بجا ہے کہ براہ راست منتخب ہونے والوں پر ان لوگوں کو فوقیت دی جا رہی ہے جن کا نہ تو عوام سے کوئی تعلق ہے نہ ہی پارٹی سے۔ مگر بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کپتان بھی افسر شاہی کے نرغے میں ہے۔
عام عوام کو سیاست نہیں مسائل کا حل چاہئیے۔ لوگ بے روزگاری سے پریشان ہیں، مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں، مگر عمران خان تقریر کے دوران بار بار جب یہ بیان کرتے ہیں میں چھوڑوں کا نہیں، این آر او نہیں دونگا، اقتدار میں رہوں یا نہیں۔ بے نقاب کر کے رہوں گا۔ تو جناب یہ کیسے ممکن ہو گا؟ کیا تنہا محاذ پر نکل کھڑے ہوں گے یا ان ارکان کے ساتھ نکلیں گے، جو اڑنے کو تیار ہیں۔ جو سینیٹ الیکشن تک آپ کے ساتھ پوری مستعدی کے ساتھ نہیں کھڑے ہو سکے۔ یہ سب صرف عوام کی طاقت سے ممکن ہے۔ جب کوئی نہیں تھا تو عوام عمران خان کے ساتھ تھے۔ عوام کے سمندر نے ارکان کو مجبور کر دیا، عمران خان کے چڑھتے سورج کے ساتھ شامل ہونے کے لیے۔ آج ارکان شاید عمران خان کے ساتھ ہیں، مگر عوام کی محبت، خلوص میں واضح دراڑ پڑ چکی ہے۔ جو اب اس لگن کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں۔
اعتماد کا سب سے پہلا ووٹ پاکستانی عوام نے ہی عمران خان کو دیا۔ روایتی سیاسی جماعتوں سے تو عوام کا بہت حد تک اعتماد اٹھ چکا۔ اب بس یہی دیکھنا باقی ہے، ایک نئی سیاسی زندگی پانے والا وزیراعظم عمران خان عوامی تکالیف، مسائل کو حل کر کے اس اعتماد کی لاج رکھے گا یا پھر ہر ادنی کھلاڑی اس اعتماد پر بھی فاتحہ پر پڑھے گا!