معلوم نہیں، یہ ویڈیو کس علاقے، شہر یا گاؤں کی ہے مگر مایوس کن ہے۔ اگر مزاح کی بجائے سنجیدگی سے سوچا جائے تو پیشگی خطرے کی اطلاع ہے۔ ہمارا مستقبل تابناک کیوں نہیں، اس ویڈیو میں صاف نظر آیا۔ ریاضی میں جمع، تفریق کا آغاز دائیں طرف سے ہو گا یا بائیں طرف سے؟ جس استاد کو یہی معلوم نہیں وہ کیا خاک نسل پروان چڑھائے گا۔ انسپکشن ٹیم کی موجودگی میں استانی صاحبہ بہت چھوٹی کلاس غالبا دوسری یا تیسری جماعت کو ریاضی کے حل بارے سکھا رہی تھیں۔ اور پیارے بچے اس حساب کو آخر کی بجائے الٹ طرف سے شروع کرنے بارے سیکھ رہے تھے۔
حکومت سمیت ہر طبقے نے اپنا پورا زور صرف اس ایک بات پر لگا رکھا ہے کہ بچوں کو معیاری تعلیم ملنی چاہیے۔ یقینا ملنی چاہیے، لیکن تعلیم کون اور کیسے دے گا؟ اس پر سبھی کبوتر کی مانند آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ کوئی برطانیہ کا سلیبس متعارف کروا رہا ہے کوئی لٹریچر پر زور ڈال رہا ہے۔ کسی نے اسکول بورڈ پر یہ لکھوا رکھا ہے کہ ہمارے ہاں انگریزی زبان کے کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بیش بہا کوششوں کے باوجود تعلیم کا اچھا معیار قائم نہیں ہو سکا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ اچھے اساتذہ کی شدید کمی ہے۔
یہ ایک عام رجحان ہے۔ یوں کہیے، کسی کی مجبوری اور کسی کا فیشن ہے۔ ڈگری ہاتھ میں لئے نوجوانوں کے دو ہی شوق ہیں۔ سرکاری استاد بھرتی ہوا جائے، نہیں تو اینکر بنا جائے۔ دونوں صورتوں میں نوابی طبیعت کا عنصر نمایاں ہے۔ دونوں پر طویل بحث ہو سکتی ہے۔ فی الوقت استاد تک خود کو محدود کر رہی ہوں۔ معیار تعلیم کے نام پر موٹی کتابوں پر مبنی جلد کیا کرے گی جب تعلیم دینے والے کے لیے کوئی پیمانہ طے نہیں کیا گیا۔
جیسے ہی اساتذہ بھرتی کا اشتہار اخبار میں چھپتا ہے تو دھڑا دھڑ درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ قابلیت کا پیمانہ بس اتنا ہی مقرر کیا جاتا ہے کہ درخواست گزار اتنی جماعتیں پاس ہو۔ فلاں مضمون پر عبور ہو یا کچھ ٹیسٹ بھی شامل اشتہار رکھے جاتے ہیں، جن میں پاس ہونے والے امیدوار ہی سرکاری نوکری کے اہل ہوں گے۔
سرکاری کی نسبت پرائیویٹ سیکٹر میں اساتذہ کا قدرے بہتر ہونا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ان پر ایک خاص چیک رکھا جاتا ہے۔ انتظامیہ ہی نہیں پڑھائی کے طریقہ کار پر والدین بھی کلاس کے مخصوص اساتذہ بارے معلومات رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس سرکاری اسکول جن کو ہر لحاظ سے بہترین ہونا چاہیے ان میں ایک بار کی بھرتی، اسکے بعد کسی کو کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔
کون نہیں جانتا سرکاری اسکولوں میں بیشتر اساتذہ جدید سلیبس کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ کلاس کا ہونہار بچہ انکے لئے کسی فرشتے سے کم نہیں ہوتا جو انکی مشکل آسان کر دیتا ہے۔ یا پھر یہ بھی جھوٹ ہے کہ سرکاری اسکول کا کلاس روم کسی مالش سینٹر کی تصویر بنا ہوتا ہے ورنہ کڑھائی سینٹر۔
سنہرا دور تو کب کا اختتام پذیر ہو گیا جب "ٹاٹ والے اسکول " کی اصطلاح پر بے شمار کامیاب بچوں کی کہانیاں بیان ہوتی تھیں۔ تب استاد اپنے شوق سے اس مقدس پیشے سے وابستہ ہوتا تھا اب تو حال پتلا اس لئے بھی ہے کہ جب 'کچھ نا سہی تو استاد ہی سہی' والا فارمولا اپنایا جاتا ہے۔ تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے کے لئے ایک تجویز بروبیشن کا عرصہ ہونا چاہیے۔ تاکہ کارکردگی جانچی جا سکے۔ چند سال قبل تعلیمی ماہرین یہ رائے دے چکے ہیں مگر مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔
عموما سرکار جب بھی استاد بھرتی کرتی ہے تو ٹریننگ پروگرام کا بھی انعقاد کرتی ہے جس میں بہترین، اچھے، درمیانی سطح کے تمام لوگ ایک ساتھ لیکچر لیتے ہیں۔ کسی کو سمجھ آئے یا سر کے اوپر سے گزر جائے کیا معلوم۔ سالوں تک کوئی پوچھنے کو تیار نہیں ہوتا کہ کس استاد کی کیا پرفارمنس ہے۔ بچے، والدین نہیں تو ٹیوشن سینٹر کے بل بوتے پر اگلی جماعت میں جاتے ہیں۔ کیا کوئی ایک بھی نہیں جو یہ پوچھے، جناب اگر بچے نے ٹیوشن سینٹر پر ہی پورے نصاب کو رٹا لگانا ہے تو اسکول کا استاد کیا کرتا ہے۔ کلاس روم میں بچے بھیڑ بکریوں کی طرح بھرے جاتے ہیں جنہیں استاد بھی کسی معلم کی حیثیت سے نہیں ایک ریوڑ کی طرح ٹریٹ کرتا ہے۔ تعلیم کا معیار ہچکولے اس لئے بھی کھا رہا ہے کیونکہ سفارش کا کلچر عام ہے۔ پھر گزر جانے والے کی جگہ خاندان کا کوئی فرد اسی کی جگہ پر لا کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ کیا ہی مناسب ہو اگر خالی آسامی اس طریقے سے پر کرنے کی بجائے کسی بھی اور شعبے میں موقع دیا جائے جس کے مطابق امیدوار کی تعلیم ہو۔ روزگار دینا ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔ لیکن میرٹ کا قتل عام حکومت خود کرتی ہے پھر کیا معیار تعلیم اور کیا نظام تعلیم۔
سرکاری اسکولوں کے اندر مافیا کے ڈیرے یا پھر باڑے بنے ہوئے ہیں۔ زیادہ فیس کے باوجود لوگ بچے کو کسی پرائیویٹ ادارے میں تعلیم دلوانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ وجہ عمارت کا رنگین یا بوسیدہ ہونا نہیں اساتذہ کا نصاب پر عبور نا ہونا ہے۔ استاد جیسے مقدس پیشے سے وابستہ افراد کی حالت پر سوگ منانے سے کچھ حاصل نہیں۔ پہلی ترجیح سمجھ کر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ انسٹیٹیوٹ بنانا ہوں گے جو کارکردگی بہتر بنانے اور جدید نصاب سے ہم آہنگ کرنے کے لئے سال میں کم از کم دو بار ہفتوں پر محیط ٹریننگ دیں۔ سالانہ کارکردگی رپورٹ تشکیل دی جائے جس میں اساتذہ کی جانچ ہو سکے۔ اور بہترین استاد کا چنائو بھی۔
اگر کسی استاد کے نزدیک سات سو پچیس اور دو سو اٹھائیس کا مجموعہ نو سو ترپن کی بجائے نو ہزار چار سو تیرہ بن جائے تو پھر یہ لمحہ فکریہ ہے۔ بہتر ہے اب گھبرا لیا جائے۔