اس کے دل میں شدید نفرت سی ہے۔ کئی برسوں بعد، اب بھی اسے لگتا ہے کہ لوگ پکا مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ سب ڈرامے بازی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کس کا اللہ سے قربت کا کتنا پکا رشتہ ہے، بس دل جانتا ہے، تو پھر یہ لبادہ کیوں؟ وہ اس بات پر عقیدہ رکھتا ہے کہ، میں نے کبھی کسی کا دل نہیں توڑا اور میں جانتا ہوں کہ اللہ کے قریب ہوں۔ ہر رات میری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب، اپنے رب سے سب کچھ کہتا ہوں۔ شکریہ بھی اور شکوہ بھی۔
شاید راز، راز ہی رہتا۔ نہیں معلوم تھا کہ میرے دل کا بوجھل پن اس کے زخموں کو پھر سے ہرا کر دے گا۔ ایک لڑکی، ایک ماں چٹان جیسا حوصلہ رکھنے کے باوجود چڑیا جیسا دل لئے زندگی کی طویل مسافت طے کرتی ہے۔ چند مہینے قبل ایک مدرسہ مولوی کے ہاتھوں چندسالہ معصوم کے جسم کو نوچنے کی تصاویر نے میرے دل کو چیر کر رکھ دیا۔ آواز جیسے گلے میں ہی دب گئی۔ آنسوؤں کی ایسی جھڑی، کہ تھمنے کا نام نہیں۔
آپ کو کیا ہوا؟ بھلی چنگی میرے پاس سے گئی تھیں۔ جب اسے معلوم پڑا، تو مجھے سامنے بٹھا کر وہ راز بھی اگلا، جو کئی سالوں سے دل کے کسی خفیہ حصے میں چھپا رکھا تھا۔ میں اس کو سنتی گئی۔ احساس سے عاری آنکھوں میں پھیلتی نمی سے لگا، اس کے برسوں کے تکلیف دہ آبلے پھٹنے لگے ہیں۔ وہ اب راحت محسوس کرنے لگا ہے۔"مشکل سے میں گیارہ سال کا تھا۔ پشاور کا ایک مدرسہ گھر سے قریب تر اور رشتہ دار کا تھا۔ دنیاوی سمیت دینی تعلیم کے لئے ہر دوپہر میں اور میرا دوست مولوی صاحب کے پاس جاتے رہے۔ مدرسہ میں موجود مولوی صاحب کا کمرہ دہشت کی علامت تھا۔ کھجور کی چھڑی سے مار پڑنے پر چیخنے کی آوازیں ہم بچوں کا خون خشک کرنے کو کافی تھیں۔ اس روز میرے دوست کو سبق یاد کرنے کے باوجود مولوی صاحب اپنے کمرے میں لے گئے۔ واپسی پر میرا دوست چلتی پھرتی لاش کی طرح تھا۔ خدا جانے کیا ہوا۔ کئی روز وہ مدرسے نہ آیا۔ ایک دن مجھے مولوی صاحب نے بلایا۔ اور پھر میں بھی چلتی پھرتی لاش بنا۔ ایسی لاش جس کی صداقت پر اپنے ہی گھر والے مشکوک ہوئے۔ ایسی بد فعلی پر یقینا میں نے ہی انہیں مجبور کیا ہو گا۔ یہ وہ جملے تھے جو آج بھی تازہ زخموں کی طرح رستے ہیں۔ اپنی روح کے خون کو میں کس کے ہاتھوں پر تلاش کروں۔ مولوی صاحب، اہل خانہ یا اس بیمار معاشرے کے؟
میرے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں۔ شاید کسی کے پاس بھی نہیں، اسی لئے کھلے عام بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے چودہ سو سال پہلے قرآن پاک میں فرما دیا تھا کہ " ہم نے اس بستی کو صریح عبرت کی نشانی بنا دیا، ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں۔"
ایک کے بعد دوسرا واقعہ، اور اب لاہور کا مفتی عزیز جس نے بالآخر اعتراف جرم کر لیا۔ کیا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا؟ حیرت تو ان عالم حضرات پر ہے جن کی تقلید کرنے والے لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ جن کی نظریں انکے بیان پر ہیں کہ کیا کہیں گے۔ لیکن ان کی زبان پر تو شاید آبلے پڑ گئے۔ ایسی خاموشی کہ خدا کی پناہ۔ روز محشر کا خوف دلوں میں ڈالنے والے کیا خود نہیں ڈرتے کہ اس رب کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے؟
دینی مدارس میں اس قسم کے واقعات نا صرف سنگین مسئلہ ہے بلکہ ایک ایسی وبا ہے، جسے اس حد تک سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا جس قدر ضروری ہے۔ کبھی مدارس اصلاحات کی نوید سننے کو ملی تھی لیکن سب دل بہلانے کا موجب بنی۔ حکومتی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ تکلیف ہے، کہ موجودہ حکومت ریاست مدینہ کے دعوے کرتی ہے لیکن کسی ایک وزیر، مشیر یا سیدھا کہیے تو درباری کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اور بادشاہ سلامت کا سارا زور سیاست کا کچرا سمیٹنے پر ہے۔ نہ جانے آنے والے وقت میں یہ وبا کیسی شکل اختیار کر لے کیونکہ شر پسندوں کا ایک ٹولہ اسے مخصوص مسالک کے ساتھ منسلک کرنے لگا ہے۔
اور المیہ کسے کہتے ہیں؟ خدائے واحد پر ایمان رکھنے، حضرت محمد مصطفی کے امتی ہونے کے باوجود بھول بیٹھے ہیں ہم دنیا میں اسلام کا ایک ایسا چہرہ پیش کر رہے ہیں جو مغربی طاقتوں کے اسلام کے بارے میں موقف کو درست ثابت کر رہا ہے۔ ہر شعبے میں کالی بھیڑیں ہوتی ہیں لیکن بات مدارس، مذہب اور مولوی کی ہو تو اسے اسلام کے خلاف سازش قرار دیا جاتا ہے۔ ہر اچھے برے موضوع پر بحث ہو سکتی ہے تو یہ مسئلہ شجر ممنوعہ کیوں؟ انہوں نے شیطان کی ایما پر ایسا گناہ ایجاد کیا، جس کا اولاد آدم میں اس سے پہلے کسی کو خیا ل تک نہ آیا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔"اور لوط کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ" تم بے حیائی (کے کام) کیوں کرتے ہو؟ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت(حاصل کرنے) کے لیے مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو۔"اسی اللہ کے نام پر جس کے دین کو ہر دہلیز پر پہنچانے کا بیڑا اٹھا رکھا۔ مسجد اللہ کا گھر ہے۔ اسے محفوظ رہنے دیجئے۔ یہ وہ پاک جگہ ہے، جہاں دشمن بھی امان پاتا ہے۔ جو دل کے سکون کا موجب بنتی ہے۔ کینسر جیسا مرض اگر جسم کے ایسے حصے میں ہو جسے کاٹ کر جان بچائی جا سکے۔ تو تامل نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کی روح اور امیج کو بچانے کے لئے اگر ایسے لوگوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے تو اس گناہ کبیرہ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ننھے فرشتوں کو چلتی پھرتی زندہ لاشیں بننے سے بچائیے۔ اس پر آواز بلند کیجئے۔ بات کیجئے۔ کیوں کہ یہ شجر ممنوعہ نہیں۔