مہنگائی میں مسلسل اضافہ، اپوزیشن کی تنقید، تاجروں کی شکایات اور عوام کو درپیش مشکلات کے باوجود وزیراعظم عمران اور انکی اقتصادی ٹیم مطمئن تھی کہ ستمبرمیں قومی خزانے میں 1ارب ڈالر جمع ہونے سے صورتحال دوماہ کیلئے خوشگوار ہوجائے گی۔ وزراء اپوزیشن کو آئینہ دکھاتے ہوئے خوب آڑے ہاتھوں لیں گے۔ تاجروں کی شکایات بھی ختم ہو جائیں گی۔ آئے روز اشیائے خورونوش کی قیمتوں اضافے کا سلسلہ بھی تھم جائے گا۔ معاشی بحالی کی دعویدار حکومت جو ن سے ستمبر کے دوسرے ہفتے تک مہنگائی کنٹرول کرنے اور روپے کی بے قدری روکنے کیلئے اپنی ہی پالیسی کے برخلاف مارکیٹ میں 1ارب 20کروڑ ڈالر جھونک چکی تھی۔ یہ وہی حکمت عملی تھی، جس پرتحریک انصاف نے 2014ء سے تنقید کے نشتروں کی بوچھاڑ جاری رکھے ہوئے ہے۔ 1ارب ڈالر سے زائد رقم جھونکنے کے باوجود مطلوبہ نتائج نہ مل سکے۔ آخری امید 9 ستمبر سے وابستہ تھی، مگر 9ستمبر کے نتیجے نے بھی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا اور پھر وزیراعظم عمران خان کو ایک مرتبہ پھر نوٹس لینا پڑ گیا۔ اس نوٹس کی تفصیل بیان کرنے سے قبل کچھ زمینی حقائق کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
وفاقی حکومت کی ہدایت پر سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے گزشتہ تین ماہ کے دوران ڈالر کی اونچی اڑان روکنے کیلئے1ارب 20کروڑ ڈالر انٹربینک میں ڈالے گئے تاکہ ڈالر کی اونچی اڑان روکی جاسکے مگر اس کے باوجود اوپن مارکیٹ سے ڈالر غائب ہونے کے باعث تاجروں کو بیرون ملک سے مال منگوانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک کی جانب سے امپورٹ سے متعلق واضح لائحہ عمل نہ ہونے کے باعث پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ حکومتی اندازوں کے برعکس درآمدت میں مسلسل اضافے نے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھادیا ہے۔ گندم، چینی، پام آئل، کپاس، دالیں، موبائل فون، گاڑیوں سمیت لگژری آئٹمز کی درآمد میں مسلسل اضافہ حکومت کیلئے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران گندم کی درآمد گزشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے میں 100 فیصد اضافے سے 983 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
پام آئل کی درآمد 45 فیصد اضافے سے 2.66 ارب ڈالر، دالوں کی درآمد 15 فیصد بڑھ کر 709 ملین ڈالر، چائے کی درآمد 10 فیصد بڑھ کر 580 ملین ڈالر ہوگئی ہے۔ چینی کی درآمد 128 ملین ڈالر ہوچکی ہے۔ خام کپاس کی درآمد 68 فیصد اضافے سے 1.5 ارب ڈالرتک پہنچ چکی ہے۔ حکومت کی آٹو موبائل پالیسی درآمدی متبادل کا کردار بھی ادا نہیں کر رہی۔ مالی سال کے پہلے دو ماہ کے دوران 9ہزار200 سے زائد گاڑیاں درآمد کی گئیں جو تقابلی مدت سے قریباً تین گنا زیادہ ہیں۔ موبائل فون اور لگژری اشیاء کی درآمد کے ساتھ بھی یہی صورتحال ہے۔ ملکی ایکسپورٹ میں بلند وبانگ دعوؤں کے باوجود خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوپارہا، جسکے باعث ہر گزرتے دن کیساتھ ڈالر کی قدر بڑھتی جارہی ہے۔ 2018 سے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے باعث گزشتہ تین برس کے دوران ملکی قرضوں میں 2.9 ٹریلین روپے اضافہ ہوچکا ہے۔ ایسی صورت حال میں مہنگائی کا جن کوئی بوتل میں بند کرسکے گا، یہ سوچنا ہی احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
9ستمبر کو پی ٹی اے نے فورجی سپیکٹرم کی نیلامی کا ڈول ڈالا۔ حکومت نے نیلامی سے امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں کہ کم ازکم 1ارب ڈالر آمدن ہوگی۔ نیلامی میں ایک ارب ڈالر کے ہدف کے مقابلے میں صرف 279 ملین ڈالر وصول ہوئے۔ یہ حکومتی ٹیم کیلئے ایک بڑا صدمہ تھا۔ پی ٹی اے نے وزارت انفارمیشن و ٹیکنالوجی، وزارت خزنہ اور عالمی کنسلٹنٹ کی مشاورت سے ایک فور جی اسپیکٹرم کی نیلامی منعقد کی تھی۔ حکومت کی جانب سے فورجی اسپیکٹرم کی نیلامی سے ایک ارب ڈالر وصولی کا ہدف مقرر کیا گیا تھا تاہم صرف یوفون نے 279 ملین ڈالر کی بولی دے کر فور جی اسپیکٹرم خریدا جبکہ موبی لنک، ٹیلی نار اور زونگ اس عمل سے دور رہے۔ معاملہ وزیر اعظم عمران خان کے علم میں آیا تو انہوں نے انتہائی کم وصولی اور تین کمپنیوں کا بولی میں شرکت نہ کرنے کے معاملے پر نوٹس لیتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا۔ ایک وفاقی وزیر نے وزیر اعظم کی برہمی دور کرنے کیلئے موقف اختیار کیا کہ موبائل فون کمپنیوں کو کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کر دی گئی ہے، جس سے موبائل فون کمپنیاں مزید فورجی اسپیکٹرم خریدنے پر مجبور ہوجائیں گی جس سے حکومت کو جلد مزید ریونیو مل جائے گا۔ ٹیلی کام انڈسٹری کے ماہرین نے ایک ارب ڈالر ہدف وصول نہ ہونے کی اصل وجہ بیان کردی ہے، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ریکارڈ اضافہ اور غیر یقینی ایکسچینج ریٹ ہے، جس کے باعث دیگر تین موبائل فون کمپنیوں نے فور جی اسپیکٹرم خریدنے سے دوری اختیار کی۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ ٹیلی کام کمپنیوں کو دی گئی، وارننگ کس حد تک کام آتی ہے۔ ماضی کا ٹریک ریکارڈ تویہی بتاتا ہے کہ ان کمپنیوں سے انکی منشا کے خلاف اضافی ریونیو نکلوانا کبھی آسان کام نہیں رہا۔ اب وزیراعظم نے نوٹس بھی لے لیا ہے شاید اس مرتبہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اورپی ٹی اے کامیاب ہوجائیں۔
وزیراعظم کے نوٹس کے بعد یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اب معاملہ بس ٹھپ ہی سمجھو مگر ایسا بھی نہیں کہ 22کروڑ عوام کے وزیراعظم کا ہر نوٹس رائیگاں چلا جائے اور اس پر کوئی بھی ٹس سے مس نہ ہو۔ وزیراعظم نے 7ستمبر کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایل پی جی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے پر نوٹس لیتے ہوئے قیمت کم کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ پیٹرولیم ڈویژن نے وزیراعظم کی ہدایت پر بھاری ٹیکسوں میں کمی کے ذریعے ایل پی جی19روپے فی کلو جبکہ گھریلو سلنڈر224روپے سستا کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ لوکل ایل پی جی پر 4ہزار687روپے فی ٹن پیٹرولیم لیوی ختم جبکہ جی ایس ٹی 17فیصد سے کم کرکے ساڑھے 7فیصد مقررکی جارہی ہے۔ درآمدی ایل پی جی پر جی ایس ٹی 10 فیصد سے کم کرکے ساڑھے 7فیصد مقرر کرنے کی سفارش بھی کردی گئی ہے۔ آئندہ ہفتے مہنگائی کے ستائے عوام کو یہ خوشخبری ملے گی کہ اس مرتبہ وزیراعظم کا نوٹس رنگ لے آیا ہے جس سے عوام کو سالانہ 17 ارب روپے کا ریلیف ملے گا۔