Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Ashiqan e Rasool Ke Janaze Aur Mazarat

Ashiqan e Rasool Ke Janaze Aur Mazarat

علامہ خادم حسین رضوی کا جنازہ ان کے عشق رسالتؐ کی گواہی دے رہا تھا۔ پاکستان کی بہتر سالہ تاریخ میں مینار پاکستان میں پہلی مرتبہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ کوء سیاستدان بڑے بڑے دعوے کرتا رہا مگر مینار پاکستان نہ بھر سکا۔ ایک فقیر بھر گیا۔ کچھ تو کمال تھا جو ڈیڑھ کروڑ کا مجمع جمع تھا۔ دشمنان اسلام پاکستانیوں میں عشق رسالتؐ کا جنون دیکھ کر پریشان ہیں اور منافقین حسد کی آگ میں جل رہے ہیں۔

نام فقیر تِنہاں دا باھوْ، قبر جنہاں دی جیوے ھْو

(باہو نام بھی انہی کے زندہ رہتے ہیں جن کی قبریں زندہ ہیں ) اولیا کرام اوپر سے اتری مخلوق نہیں ہوتے، عام انسان ہوتے ہیں مگر رب انہیں خاص بنا دیتا ہے۔ اولیاء کرام کے مزارات سے کوئی شخص بھوکا نہیں لوٹتا۔ دن رات لنگر جاری رہتے ہیں۔ بلاامتیاز ہر مذہب رنگ اور نسل کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہ مزارات نہ کسی حکومت کی دیکھ بھال کے محتاج ہیں اور نہ عوام کی رونقوں کے منتظر۔ ان کا نظام ایک غیبی طاقت چلا رہی ہے۔ اسی ذات پاک نے اپنے اولیاء کی قبروں کو روشن رکھا ہوا ہے۔ کیا لوگ تھے، زندہ تھے تو کچی چھونپڑیاں مسکن تھیں، دنیا سے گئے تو بلند بالا وسیع وعریض مزارات مسکن بن گئے۔ ان کے گھر تاریک تھے مگر دل روشن تھے۔ خود بھوکے پیاسے رہتے لیکن جو آیا سیراب ہو کر گیا۔ دنیا سے جانے کے بعد بھی مہمان نوازی کی روایت بدلی نہیں۔ ہمارے ایک عزیز پنجاب سے سندھ شہباز قلندر حاضری کے لئے گئے اور وہاں شرک و بدعات کا احوال بھی سنایا۔ اولیا اللہ عاشق رسول ﷺ ہوتے ہیں، خرافات سے ان کا کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ اکثریت شہباز قلندر کے بارے میں کچھ بھی معلومات نہیں رکھتی اور دھمال ڈالنا فیشن بنا لیا ہے۔

سید عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندر ایران کے علاقے آذربائیجان کے ازبک قبیلے میں 1178ئ(5073ھ) میں پیدا ہوئے۔ سید عثمان مروندی کا تعلق امام جعفر صادق کے خاندان سے تھا۔ آپ کے والد سید کبیر الدین جعفری کے آبائو اجداد عراق سے مشہد آئے اور پھر مروند میں سکونت اختیار کر لی۔ مروند کے حاکم سلطان شاہ نے اپنی بیٹی کی شادی معتبر سید خاندان کے صاحبزادے سید کبیرالدین سے کر دی۔ ان سے بیٹا عثمان پیدا ہوا جو بعد میں لال شہباز قلندر کے نام سے مشہور ہوا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت نیک و زاہد والدین نے کی۔ اٹھارہ برس کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا اور دو سال بعد والدہ بھی چل بسیں۔ شہباز قلندر مروند سے بغداد ہجرت کر گئے۔ بغداد سے عربی فارسی سنسکرت اور دنیاکی بے شمار زبانوں پر عبور حاصل کیا۔ آپ ماہر لسانیات اور عربی گرائمر کے ماہر کہلائے جاتے تھے۔ قرآن و حدیث اور فقہی علم میں بھی باکمال تھے۔ ایک روز آپ حضرت امام موسیٰ کاظم کے روضہ پر دعا کر رہے تھے کہ ایک بزرگ بابا ابراہیم مجرّد آپ کے قریب آ کر کھڑے ہو گئے اور آپ کا نام پکار کر کہا سید عثمان تم آ گئے، میں تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ بابا ابراہیم مجرد کو حضرت امام حسین کے عشق کی حد تک عقیدت تھی۔ کربلا میں امام کے مزار شریف پر ہی قیام رہتا جس کی وجہ سے انہیں بابا کربلائی بھی کہا جاتا تھا۔ بابا کی زندگی کے آخری لمحات تھے۔ شہباز قلندرکو حضرت امام موسی ٰ کاظم کا موروثی خرقہ اور ایک گلو بند جس میں حضرت زین العابدین کے چند پتھر تھے عطا کئے۔ اہم وعظ و نصیحت کے بعد بابا کا وصال ہو گیا۔

شہباز قلندر نے بابا کو اپنے ہاتھوں سے کربلا کے احاطہ میں دفن کیا اور ان کی وصیت کے مطابق سید جمال الدین مجرد قلندری کی تلاش میں نکل پڑے۔ یہ بزرگ اپنے زمانے کی ایک چلتی پھرتی لائبریری تھے۔ علوم کا خزانہ تھے مگر اچانک سب کچھ چھوڑ کر ایک قبرستان میں جا ڈیرہ لگایا۔ حضرت شہباز قلندر ان تک پہنچ گئے اور کچھ عرصہ گزارنے کے بعد حج کے لئے روانہ ہو گئے۔ حج سے واپس بغداد پہنچے۔ حضرت امام علی، امام حسین اور حضرت عبدالقادرجیلانی کے مزارات پر حاضری کے بعد دین کی خدمات آپ کو بلوچستان کے علاقوں میں لے گئیں۔ مکران سے بلوچستان کے ایک مقام دست ِ شہباز پر قیام کیا۔ وہاں سے منگو پیر گئے۔ پہاڑوں پر چِلّہ کاٹا۔ اس کے بعد ملتان تشریف لے گئے۔ اس دور میں ملتان ہند سندھ کا بغداد کہلاتا تھا۔ حضرت بہاالدین زکریا کا طوطی بولتا تھا۔ ناصر الدین قباچہ کی حکومت تھی۔ حضرت بہائوالدین زکریا، بابا فریدالدین گنج شکر، سید جلال الدین بخاری اور لال شہباز قلندر دوست تھے۔ شہباز قلندر پچاس سال کی عمر میں سندھ جام شورو کے گائوں سہون تشریف لے آئے۔ پورا سندھ گمراہی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس قلندر نے اپنے درویشوں کے ہمراہ بازار حسن کے باہر ڈیرہ لگا لیا۔ قلندر کا رعب و دبدبہ تھا کہ بازار حسن کا کاروبار ماند پڑنے لگا۔ لوگوں کے دل بدلنے لگے۔ اللہ کے اس قلندر کے پہاڑی پر قیام نے سندھ کو مسلمان کر دیا۔

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن

آج بھی ہندو نسلیں شہباز قلندر کی درگاہ پر عقیدت کے موتی نچھاور کر رہی ہیں۔ سید عثمان المعروف لال شہباز قلندر کا تعلق اہل بیت رسول اللہ سے ہے لہذا اہل تشیع آپ سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ شہباز قلندر کا صوفی سلسلہ سہروردیہ ہے۔ 97 سال کی عمر میں 1274ء میں وصال ہوا۔ سہون کے جس مقام پر قیام پذیر تھے، اسی مقام میں دفن ہیں۔ حضرت شہباز قلندر کو دنیا سے گئے 762 سال ہو گئے ہیں مگر آج بھی پاکستان کے چاروں صوبوں سے ہر مذہب اور فرقے کے لوگ وہاں اکٹھے ہوتے ہیں۔ جو کام دنیا کے طاقتور حکمران نہیں کر سکتے وہ کام یہ ولی کر دیتے ہیں۔ چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر نہیں بلکہ قلندر سہون شریف ہیں۔

نہ تاج و تخت میں نہ لشکر و سپاہ میں ہے

جو بات مرد ِ قلندر کی بارگاہ میں ہے

ہمارے ایک عزیز کے دل میں خواہش ہوئی کہ پنجاب سے اتنی دور سندھ آئے ہیں تو کیوں نہ بھٹو کے مزار پر بھی دعا کرتے چلیں۔ کٹھن سفر طے کر کے لاڑکانہ میں گڑھی خدا بخش پہنچے۔ کبھی ذوالفقار علی بھٹو کا آبائی قبرستان تھا، آج قبروں کے اوپر مینار اور مزار تعمیر ہے۔ مزار کے اندر بھٹو کے قریبی رشتہ دار مدفن ہیں۔ ہمارے عزیز نے بتایا کہ وہاں کوئی ویرانی سی ویرانی تھی۔ نہ کوئی بندہ نہ بشر۔ وضو کے لئے کوئی ٹوٹی سلامت نہ تھی اور نہ پانی میسر تھا۔ بیت الخلاء کے دروازے ٹوٹے ہوئے تھے۔ سنگ مرمر کی عمارت کے اندر ریشمی چادروں میں لپٹی اونچی نیچی قبریں اپنی داستان ویرانی سنا رہی تھیں۔ عزیز نے کہا "زندہ ہے بھٹو زندہ ہے" کے نعرے سنتے سنتے آج یہاں پہنچا تو ہر طرف موت کا عالم تھا۔ ایک شخص ملا تو اس نے بتایا کہ جب کوئی سرکاری شخصیت یہاں آتی ہے تو انسان نظر آتے ہیں، باہر بیت الخلائ￿ اور دیگر حالات و ماحول بتا رہا تھاکہ اس مزار کے رکھوالے کوئی مفلس لوگ ہیں۔ سلطان باہو ساری داستان ایک مصرع میں سمو گئے ہیں کہ

نام فقیر تِنہاں دا باھوْ، قبر جنہاں دی جیوے ھْو