"بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو تکلیف دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار رکھا ہے" (احزاب۵۷) گستاخان رسول ﷺ پر خود پروردگار لعنت بھیج رہا ہے۔ اللہ کے حبیب کی شان میں گستاخی کرنے والے لعنتی جہنمی دونوں جہانوں میں نشان عبرت بنتے ہیں۔ وزیر آعظم عمران خان نے ان خبائث کو اقوام متحدہ کے خطابات کے علاوہ متعدد مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان اپنے نبیؐ کے معاملہ میں بہت حساس ہیں۔ نبی آخر زماں ؐ سے محبت مسلمان کا ایمان ہے۔ گستاخی رسولؐ کسی بھی صورت میں کسی طور برداشت نہیں کی جا سکتی۔ مسلمانوں کے جذبات مشتعل کرنے سے گریز کریں۔ اس برے عمل کا رد عمل بھی شدید ہوتا ہے۔ مگر لگتا ہے یورپی ممالک نے مسلمانوں کو ایذا پہنچانا اپنے آئین کا حصہ بنا رکھا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اتوار کے روز فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ کو ایک خط میں گزارش کی ہے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے اسلام مخالف مواد ہٹائیں اور ایسا اسلاموفوبک مواد شائع کرنے پر پابندی عائد کریں۔ فرانس ایک بار پھر اسلام دشمنی میں حدیں پار کر گیا، فرانس میں گستاخانہ خاکوں کو پہلے اخبارات میں شائع کیا جاتا رہا اور اب اْن خاکوں کو سرکاری عمارتوں پر دکھایا گیا اور اِس گھنائونے کھیل میں فرانسیسی صدر میکرون بھی شامل تھا جس کے بارے میں ترک صدر اردوان نے بہت درست کہا کہ میکرون کو اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہیے۔۔ فرانس میں گستاخانہ خاکے دکھانے کے بعد فرانسیسی صدر کی طرف سے اس کی حمایت میں بیان دینے پر پوری دنیا میں عالم اسلام سراپا احتجاج ہے، پاکستان کی سینٹ اور قومی اسمبلی میں گستاخانہ خاکے دکھانے پر مذمتی قراردادیں پیش کر دی گئیں۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ فرانسیسی صدر کا گستاخانہ خاکوں پر رویہ درست نہیں، یورپی ممالک کو فرانسیسی صدر کے اس اقدام کی مذمت کرنی چاہیے، فرانسیسی صدر مسلمانوں کے جذبات مجروح کر رہے ہیں، اس وقت متعدد اسلامی ممالک سمیت عرب ممالک میں فرانس کیخلاف شدید غم و غصہ اور احتجاج کیا جا رہا ہے، متعدد عرب ممالک نے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ اس وقت کویت، اردن اور قطر سمیت کئی عرب ممالک کے چھوٹے بڑے سٹورز پر سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹا دیا گیا ہے، فرانس میں حضور اکرمﷺ کی توہین پر مبنی خاکوں کی ایک مرتبہ پھر سے تشہیر کرنے پر عرب ممالک سے سخت رد عمل آگیا ہے۔ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کے بعد فرانس کے صدر نے عرب ممالک سے اپیل کی ہے کہ ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ اس وقت پوری دنیا میں عمومی طور پرمغربی ملکوں، یورپ و امریکا میں اسلامو فوبیا کی لہرشدید تر ہوتی جارہی ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ ناروا، بیجا اور امتیازی سلوک نیز اسلام کو بدنام کرنے اور اس کی مقدس ہستی کی توہین کرنے کے واقعات اب مغرب میں معمول بنتے جارہے ہیں۔ آزادی رائے کی آڑ میں گستاخانہ خاکے بنانا معمول بن چکا ہے اور اب تو حد ہو گئی جب فرانس کے صدر نے بھی اس نجس عمل کی برملا حمایت کر دی۔ مغربی ممالک میں گستاخانہ خاکوں کا سلسلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی نئی لہر شروع ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی متعدد واقعات ہو چکے ہیں۔ 2006 میں پاکستانی شہری عامر چیمہ نے جرمنی میں گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے ملعون ایڈیٹر کو جہنم واصل کیا۔
گستاخانہ خاکوں کے شیطانی عمل کا آغازڈینش اخبار"جے لینڈ پوسٹان" نے2005 میں کیا اور چند ماہ بعد فرانس کے ہفتہ وار اخبار "چارلی ایبڈو" نے انھیں شائع کر کے مزید نفرت اور اشتعال کو ہوا دی، دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے حتیٰ کہ یورپین ممالک میں سوجھ بوجھ رکھنے والے یورپین شہریوں نے بھی اس عمل کی مذمت کی مگر انتہا پسند اسلام مخالف افراد نے "اظہار رائے کی آزادی" کا نام دیکر ان اخبارات کی تعریف اور حمایت کر کے ان کے حوصلے بڑھائے، 2015 میں چارلی ایبڈو اخبار کے آفس پر حملہ ہوا اور اس حملہ میں اخبار کے عملے اور وہاں موجود کچھ مہمانوں سمیت 12 افرادکو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس کی ذمہ داری شریف اور سعید کواچی نامی دو بھائیوں نے قبول کی، موقع کے شاہدین کے مطابق گستاخانہ خاکوں کی اشاعت میں ملوث اخبار کے عملے کو مارنے کے بعد شریف اور سعید کواچی نے وہاں موجود لوگوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ"ہم نے اپنے پیغمبر ﷺ " کی شان میں گستاخی کا بدلہ لے لیا ہے۔
ستمبر میں فرانس میں متنازعہ خاکے بنائے گئے، اب پھر یہ شر پھیلایا گیا اور اس کے رد عمل میں اٹھارہ سالہ مسلمان نوجوان نے ٹیچر کو واصل جہنم کیا۔ مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا جیسے لعنتی طبقہ نے اپنا مشن بنا رکھا ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جہاں ایسا متنازعہ واقعہ پیش آئے اس ملک کی مصنوعات خریدنا بند کر دی جائیں۔