ریاست ٹیکساس کے فورٹ ورتھ جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ سے تین گھنٹے طویل ملاقات، کے بعد فوزیہ صدیقی کے جذبات تکلیف دہ ہیں۔ 20 برس بعد ڈاکٹر عافیہ سے ان کی بہن کی دو ملاقاتیں ہوئی جن میں سے پہلی ملاقات وہ تنہا تھیں جبکہ دوسری ملاقات میں ان کے ساتھ وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان بھی موجود تھے۔ ملاقات کے دوران ڈاکٹر فوزیہ کو عافیہ سے گلے ملنے اور ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہیں تھی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر فوزیہ کو اس بات کی اجازت بھی نہیں دی گئی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں کی تصاویر دکھا سکیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ ملاقات جس جگہ ہوئی وہاں دونوں بہنوں کے درمیان جیل کے ایک کمرے کے درمیان میں موٹا شیشہ موجود تھا۔ سفید سکارف اور خاکی جیل ڈریس میں ملبوس ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ملاقات کے دوران کہا کہ ان کو اپنی والدہ اور بچے ہر وقت یاد آتے ہیں۔ عافیہ بار بار ایک ہی جملہ دہراتی رہیں کہ مجھے اس جہنم سے نکالو۔ ، وکیل کلائیو سٹیفورڈ کا کہنا ہے کہ عافیہ نے انھیں بتایا کہ وہ یہ جاننا چاہتی ہیں کہ آیا ان کا نوزائیدہ بیٹا سلیمان اس وقت ہلاک ہوا تھا جب انھیں اغوا کیا گیا۔
عافیہ کی یاداشت متاثر ہوئی ہے مگر ایک ماں کو اس کے بچے کبھی نہیں بھول سکتے۔ امریکی عدالت نے متعصبانہ فیصلہ دیا تھا۔ عافیہ پاکستانی شہری ہے اسے پاکستان کے حوالے کیا جاتا۔ عمر شیخ پاکستانی شہری ہے اسے امریکا کے حوالے نہیں کیا گیا تھا۔ پاکستانی عدلیہ عافیہ کو بھی پاکستان لانے کے لیے کوشش کر سکتی تھی۔ عمر شیخ کون ہے؟ امریکا کے اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل'سے وابستہ صحافی ڈینئل پرل کو کراچی میں جنوری 2002ءمیں اغوا کیا گیا تھا جس کی لاش اسی سال مئی 2002ءمیں برآمد ہوئی تھی۔ اس کیس میں پولیس نے چار ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان میں سے تین کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جب کہ مرکزی ملزم عمر سعید شیخ کو قتل اور اغوا کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ سال سندھ ہائی کورٹ نے چاروں ملزمان کو قتل کے الزام میں بری کر دیا تھا۔ جب کہ احمد عمر شیخ کو ڈینئل پرل کے اغوا کے الزام میں سات سال قید کی سزائی سنائی گئی تھی۔ اور یہ سزا پوری کرنے پر اسے بھی رہا کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
عمر شیخ کی رہائی پر امریکا نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔ کچھ سیاسی حلقے یہ بدگمانی پھیلانے کی کوشش کرتے چلے آرہے ہیں کہ عافیہ صدیقی کی رہائی پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی اجازت سے مشروط ہے۔ اگر یہ سچ مان لیا جائے تو سکیورٹی اداروں کو عمر شیخ کی رہائی پر بھی اعتراض ہونا چاہیے تھا جبکہ عدلیہ کے فیصلے پر کوئی ادارہ اثر انداز نہیں ہو سکا اور نہ امریکا کے رد عمل کی پروا کی گئی۔
عمر شیخ امریکی نہیں پاکستانی شہری ہے، پاکستان کی عدالت نے آزادانہ فیصلہ سنادیا۔ امریکی عدالت چاہتی تو عافیہ صدیقی جو کہ امریکی شہری بھی نہیں پاکستانی شہری ہے کو آزاد کرکے غیر متعصب ہونے کا ثبوت دے سکتی تھی۔ جب امریکا نے ایک پاکستانی شہری کو، جس پر دہشت گردی یا قتل ایسے سنگین جرائم بھی ثابت نہیں ہو سکے چھیاسی برس کی سزا سنا کر ظلم اور بے انصافی پر مہر ثبت کر دی۔ اس کے بعد پاکستان کی عدالت سے اپنی مرضی کا فیصلہ منوانے کاکیوں کرحقدار ہو سکتا ہے؟
امریکی شہری انسان ہوتا ہے تو پاکستانی انسان نہیں ہوتا؟ سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی تین حکومتوں کے دوران کسی نے بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوشش نہیں کی آخر کیوں؟ جواب سادہ ہے کہ پاکستان پر انھی گوروں کے غلام قابض ہیں اور جب ان سے عافیہ صدیقی کی رہائی کا سوال اٹھاؤ تو پاکستان کے سکیورٹی اداروں پر انگلی اٹھا دیتے ہیں۔
عمر شیخ کی رہائی اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ پاکستانی سکیورٹی ادارے عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے یا امریکا کا ڈر ہوتا تو عمر شیخ لاہوراپنے خاندان میں آزاد زندگی نہ گزار رہا ہوتا۔ یہ پاکستان کی حکومتیں ہیں جنھوں نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کبھی کوشش کی ہی نہیں۔ کسی حکمران نے عافیہ کو جہنم سے نکلوانے کے لیے امریکہ کو ایک لیٹر تک نہیں لکھا۔ آخر کیوں؟