ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی دوبارہ تعیناتی پر حکومتی پارٹی بھی حیران پریشان ہے جبکہ اپوزیشن کی خواتین کو ان کی ہم پلہ ہی ادھیڑ سکتی ہے۔ لوہے کو لوہاکاٹتا ہے، زہرکو زہرمارتا ہے، کرپشن کوکرپشن ہی"کاٹ" سکتی ہے۔ ایاز صادق کے بیان نے انڈین میڈیا پر طوفان بپا کر رکھا ہے۔ فواد چودھری کی سلپ آف ٹنگ نے بھی "احمق سجن سے دانا دشمن بہتر " کہاوت پر مہر ثبت کر دی ہے۔ ایاز صادق کی شہر بھر میں توہین آمیز تصاویر اسی بے رحم سیاست کا تسلسل تو نہیں جس نے بینظیر اور نصرت بھٹو کی ناشائستہ تصاویر ہیلی کاپٹروں سے اسی شہر پر پھینکی تھیں؟
فوادچودھری کی زبان پھسل گئی، بالاکوٹ کی بجائے پلوامہ کہہ گئے۔ البتہ ایاز صادق کی زبان ہی اپنی نہیں "میرے وچ میرا نواز بولدا"۔ فواد چودھری نے غلطی کا اعتراف کر لیا اور ایاز صادق نوازشریف کی تھپکی پر ڈٹ گئے ہیں۔ سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ عوام کے مسائل کا ان لغو بیانات سے کچھ لینا دینا نہیں۔ عوام کو روٹی چاہئے اور حکمران ابھی تک نظام کے بارے میں کنفیوز ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اب فرماتے ہیں کہ پاکستان میں چین جیسا نظام لانا چاہتا ہوں۔ اس سے پہلے مدینہ اور ایرانی انقلاب کی خواہش بھی کی تھی؟ اچھی طرح سوچ لیں کہ اس مملکت میں نظام مدینہ لانا چاہتے ہیں۔ ایرانی انقلاب یا میڈ ان چائنا نظام؟ عوام کی بنیادی ضروریات پر توجہ دیں۔ چینی نظام اور نوازشریف کی واپسی جیسی خواہشات اگلی ٹرم میں پوری کر لیجئے گا۔ نوازشریف جم کر سیاست کھیل رہے ہیں۔ کسی بھی بیمار سیاستدان کے مرض کو پہلے سمجھو، سیاستدان کی شفا ان کی سیاسی سرگرمیوں میں پنہاں ہے۔
ہم نے 2000ء میں جس وقت کالم نگاری کا آغاز کیا، اس وقت نوازشریف سعودی عرب جلا وطن تھے۔ کالم نگاری نے ہمیں ملکی سیاست کے اس قدر قریب کر دیا کہ پاکستان میں بسنے والوں سے زیادہ باخبر رہنے لگے۔ جو حقائق کالم میں نہیں لکھے جا سکتے۔ سوشل میڈیا پراپنی ویڈیوز میں بیان کرتے رہتے ہیں۔ نوازشریف کا تیسرا دور حکومت ہماری کالم نگاری کے بعد پہلا تجربہ و مشاہدہ تھا۔ شریف خاندان کی جلا وطنی کے بعد 2001 میں شریف خاندان کاپہلا انٹرویو ہم نے کیا تھا۔ دس سال مشرف آمریت کے خلاف بے باک لکھا اور جمہوریت کو سپورٹ کیا۔ جب نوازشریف تیسری مرتبہ اقتدار میں آئے تو ہر محب وطن کی طرح ہمارا دل بھی ملک میں مساوی شفاف نظام دیکھنے کا متمنی تھا۔ حکومت کی مسلسل حمایت اور حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
جمہوریت کی مروت میں نوازحکومت کی بعض کمزوریوں کو بھی نظر انداز کرنا پڑا، لیکن پاکستان کے کرپٹ اور غیرمنصفانہ نظام میں تبدیلی تو درکنار، مزید بدعنوانی دیکھنے کو ملی۔ وہی بوسیدہ سفارشی، راشی بد عنوان نظام۔ اگر کچھ مثبت دیکھنے کو ملا تو وہ لاہور کی ظاہری حالت ہے جو سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی انتھک کاوشوں کا نتیجہ ہے، ورنہ وفاق کا تو بیڑا ہی غرق تھا۔ صرف تعلیم کو ہی لے لیں تو ہے کوئی جو پوچھ سکے کہ امریکہ کی سابقہ خاتون اوّل مشعل اوباما نے پاکستان میں طالبات کی تعلیم کے لئے مریم نواز کو ستر ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔ وہ رقم کہاں اور کب خرچ ہوئی؟ یہ ایک سوال ہے جبکہ ملک کا کوئی شعبہ اور محکمہ ایسا نہیں جہاں ایک عام شریف شہری اپنا سیدھا کام بھی بغیر سفارش اور رشوت کے آسانی سے کراسکے۔ پاکستان میں ایک عام شہری کی زندگی بہت مشکل ہو چکی ہے۔ ان حکمرانوں کے وعدوں کا تمام فیض ان کے حواریوں کو ملتا ہے، لیکن ان کے دعوئوں کا ثمر نیچے ایک عام شہری تک کیوں نہیں پہنچ پاتا؟ شریف دور میں بھی مفت کے عمرے انجوائے کرنے والے وہی حواری ہاتھ باندھے حکمرانوں کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔
مساوی نظام انصاف ہو گا تو ملک ہو گا ورنہ امیر غریب میں فاصلے جس تیزی کے ساتھ پیدا کئے جا رہے ہیں، نفرتیں اور انتقام اس ملک کو لہو لہان کر دے گا۔ نوازشریف کو چھوڑنے کی بات ہو تو عاشقان خان کہتے ہیں عدالت نے چھوڑا ہے عمران خان نے نہیں جبکہ عمران خان دعوے کرتے رہے کہ سب چوروں کو جیل میں بند کر دیا اور نوازشریف کو مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا وغیرہ؟ جو حکومت آئی اس کا پہلا اعلان یہی ہوتا ہے کہ قومی خزانہ خالی ہے۔ پچھلی حکومت نے کرپشن کی انتہا کر دی اور جب حکومت ناکام ہو جائے تو آخری اعلان"ملک کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔" اگلی باری لینے کا طریقہ واردات اب پرانا ہو چکا کہ ہم نہ ہوئے تو ملک دشمنوں کے نرغے میں چلا جائے گا۔
قومی خزانہ خالی ہے، "قرض اتارو، ملک سنوارو" جیسے جذباتی نعروں سے عوام کو بے وقوف بنایا جاتا رہا۔ نہ قومی خزانہ بھر سکا، نہ مِلک قرض سے آزاد ہو سکا۔ نہ ملک سے خطرات کے سنگین بادل چھٹ سکے۔ کسی نے عوام کے مذہبی جذبات کیش کرائے اور کسی نے روٹی، کپڑا، مکان سے بے وقوف بنایا اور کوئی آیا تو اس نے ملک کو چین اور یورپ بنانے کے خواب دکھائے۔ ہر بار عوام کی آنکھ کھلی تو خود کو پہلے سے بھی دس قدم پیچھے پایا۔ ملک کو پہلے سے بھی زیادہ مقروض پایا۔ پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ پایا۔ جو آیا وہ پہلے سے زیادہ حالات خراب کر کے گیا۔ پہلے سے زیادہ بے وقوف بنا کر گیا۔ پہلے سے زیادہ مسائل دے کرگیا۔ خواب دکھا کر گیا۔ اب کسی کے وعدے کوئی دعوے، مذہبی رنگ، لبرل ڈھنگ کچھ بھی بے وقوف نہیں بنا سکتا۔ بہت دھکے اور دھوکے کھا لئے اس ملک نے۔ جمہوریت و آمریت میں تمیز مٹ چکی ہے۔ جو آیا جمہوری آمر ثابت ہوا۔ ون مین شو۔ باقی کاسہ لیس اکٹھے ہوئے ہیں۔ خوشامد اور جھوٹی تعریفوں کے پل باندھ کر مفاد لینے والے حاشیہ بردار۔
کوئی تو آئے جو پاکستان کو شفاف منصف مساوی آسان نظام دے جائے۔ باہر کی دنیا کی طرح پاکستان کا عام شہری بھی آسان زندگی گزار سکے۔ پانی بجلی کے بلوں سے لے کر ملازمت ترقی تبادلے تک اس کے کام روٹین کے ساتھ ہو سکیں۔ بغیر کسی سفارش، رشوت، بدعنوانی کے میرٹ پر، وقت پر، بڑے بڑے منصوبوں کی ترقی کا فیض نیچے کب پہنچے گا جناب؟ جب عمران خان نے امریکہ میں کہا کہ میں جاکر نوازشریف کا اے سی اتار دوں گا تو آصف زرداری نے خود جیل سپرنٹنڈنٹ کو بلاکر اپنے کمرے سے اے سی اتروا دیا تھا۔ حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ منہ سے الفاظ سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہئیں۔ باپ بیٹی حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں۔ نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں۔ اللہ تعالی عمران خان کی مشکل آسان فرمائے۔ بڑے بول اور دعوے بول بیٹھے ہیں۔ خدا بھرم رکھے۔