حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ "میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔" (ابوداؤد، ترمذی) اس حدیث شریف میں آنحضرت ﷺ نے لفظ "خاتم النبیین" کی تفسیر "لانبی بعدی" کے ساتھ خود فرمادی ہے۔ حافظ ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں "اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم ﷺ نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپ ﷺ کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا وہ بہت جھوٹا، بہت بڑا افترا پرداز، بڑا ہی مکار اور فریبی، خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا، اگرچہ وہ شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔" ھمارے نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ ﷺ کے مقام عالی سے متعلق پورا قرآن پاک بھرا ہوا ہے۔
ازواج مطہرات سے مروی احادیث مبارکہ بھری ہیں۔ ام المومنین حضرت میمونہ بنت ہارث سے روایت ہے کہ ایک صبح رسول اللہﷺ تہجد کی نماز کے لئے وضو فرما رہے تھے کہ اچانک آپ نے لبیک لبیک لبیک فرمایا اور اس کے فوراً بعد نصرت نصرت نصرت فرمایا، میں نے عرض کی یا رسول اللہ اس کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا "عمر بن سالم اپنے سفر سے مدینہ کی جانب واپس آرہے ہیں اور راستے میں انہیں قریش مکہ سے حملہ کا خطرہ محسوس ہوا اور انہوں نے مجھے مدد کے لئے پکارا اور کہا کہ یارسول اللہ میری مدد فرمایئے اور میں جواب میں یہ کہہ رہا تھا لبیک لبیک لبیک (میں نے تمہاری مدد کردی)"۔ (امام طبرانی، جلد دوم) معرکہ بدر میں مارے جانے والے کفار اور ان کے سردار ابوجہل کو گڑھا کھود کر اس میں دفن کر دیا گیا۔ حضور پاک کفار کی قبر کے قریب کھڑے ہو کر گڑھے میں پڑے کفار کے نام پکارتے ہوئے فرمانے لگے جسکا مفہوم یہ ہے کہ اے فلاں فلاں فلاں تمہارے غرور نے تمہیں تمہارے انجام تک پہنچا دیا۔ اس پر قریب کھڑے حضرت عمر فاروق ؓ نے عرض کی "یا رسول اللہ یہ لوگ مردہ ہیں، کیا یہ آپ کو سن سکتے ہیں؟ نبی کریم نے فرمایا "عمر یہ سن رہے ہیں البتہ زندہ انسان انہیں نہیں سن سکتے"۔ (بخاری شریف)
جدید ٹیکنالوجی، فون، انٹر نیٹ، ویڈیو لنک کے اس مادی دور میں روحانی رابطوں کو سمجھنا آسان ہو گیا ہے لیکن فقط صاحب عقل کے لیئے۔ ہٹ دھرم اور کند ذہن طبقہ دیوار پر لکھا پڑھنے سے بھی محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ جس ہستی سے محبت کا حکم دیتا ہے، اس سے تعلق و رابطہ بھی بحال کر دیتا ہے۔ انسان مادی کانوں سے سننے سے محروم ہے۔ مردہ سنتا ہی نہیں بولتا بھی ہے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ نے فرمایا نبی کریمﷺ نے فرمایا" جب جنازہ تیار کرکے رکھ دیا جائے اور لوگ اسے اپنی گردنوں پر اٹھا لیں تو اگر وہ نیک ہے تو کہتا ہے، مجھے جلدی سے لے چلو اور اگر بد ہے تو اپنے گھر والوں سے کہتا ہے، ہائے افسوس کہاں لے جا رہے ہو؟ اس کی آواز کو ہر چیز سنتی ہے، سوائے انسانوں کے، اگر انسان سن لے تو بیہوش ہو جائے " ( صحیح بخاری، کتاب الجنائز)اور جو نہ سن سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں وہ یہ چلتی پھرتی زندہ لاشیں ہیں جو جدید ٹیکنالوجی پر تو اندھا ایمان لے آئے ہیں مگر روح کی قوت گویائی و سماعت سے منکر ہیں۔ چلتے پھرتے بے ضمیر اور انا پرست انسانوں کو پتھر کے مورتیوں سے تشبیح دی گئی ہے۔
اللہ سبحان تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شہید کو مردہ مت کہو، شہید زندہ ہوتا ہے۔ اور انبیاء کا مقام شہداء سے افضل ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ انبیاء کے سردار ہیں۔" جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ا ن لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے۔ یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جوکسی کو میسر آئیں۔ یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور حقیقت جاننے کے لئے بس اللہ ہی کا علم کافی ہے"۔ (النساء 70)۔ اس آیت مبارکہ کی شان نزول یہ ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ! آپ مجھے میری ذات، میرے خاندان اور میری اولاد سے زیادہ عزیز ہیں۔ جس وقت میں گھر ہوتا ہوں تو آپ کویاد کرتا ہوں، میں انتظار میں رہتا ہوں کہ کب آپ کو دیکھوں۔ جب میں اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہوں، مجھے علم ہے کہ جب آپ جنت میں داخل ہوں گے تو آپ انبیاء کے ساتھ ہوں گے، مجھے ڈر ہے جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو شاید آپ کو نہ دیکھ پاؤں "۔ رسول اللہ نے اس شخص کو کوئی جواب نہ دیا حتی ٰ کہ مذکورہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا " تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک مجھ سے اپنے ماں باپ، اپنی اولاد اور مال سے زیادہ محبت نہ کرے "۔ ( بخاری شریف )حضرت صفوان ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا "انسان اسی کے ساتھ رکھا جائے گا جس سے وہ محبت کرتا ہے "۔ حضور نے حضرت حسن و حسین ؓکو گود میں اٹھا رکھا تھا اور فرمایا " جو مجھ سے، ان دونوں سے (نواسوں ) اور ان کے ماں باپ سے محبت کرے گا، وہ روز قیامت میرے ساتھ ہو گا "۔ (سنن ترمذی)حب اہل بیت رسول اللہ مومن کے ایمان کا حصہ ہے۔ قبل از اسلام مشرکین اپنے بتوں اور راہبروں کو خداکا رتبہ دیتے تھے۔ قرآن میں ان مشرکین کا ان کے خداؤں کے ساتھ تعلق کا ذکر ہے۔ ان کو اندھے بہرے گونگے کہا گیاہے۔ ان کے قلوب کو مردہ کہا گیاہے۔ کسی مسلمان پر شرک کی بہتان لگانا قطعی نامناسب ہے۔ دوسروں کو حقیر، گناہگاریا مشرک و بدعتی سمجھنا ہلاکت ہے۔ شرک صرف خداکے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے کا نام ہی نہیں اسکے علاوہ بھی کچھ چیزیں شرک کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے "(الفرقان44) ۔ توجہ فرمائیں کوئی اس زمانے میں جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ خواہش نفس کا غلام نہیں؟ علمائ، مشائخ، زہدو تقویٰ کے دعویدار ا، مفتی، مبلغین الغرض عوام الناس سے خواص تک ہر شخص نے کسی نہ کسی درجے پر خواہش نفس کو اپنا خدا بنا رکھاہے۔"شرک " کی اس قسم میں ہر شخص مبتلا ہے۔ نجات کا دارومدار عقیدے پر ہے۔ جھوٹی نبوت کے دعویدار سب سے بڑے مشرک اور خواہش نفس کے غلام ہیں۔