عشق کا اصول ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ہر چیز سے محبت ہوتی ہے اس کی ہر ادا سے محبت ہوتی ہے اور جس کو عشق رسول ہو اس کے محبت کا عالم کیا ہوگا۔
حدیثِ پاک میں ہے: تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل)مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاوں۔
حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کی والدہ فرماتی ہیں، جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں )
میلاد النبی ﷺ کا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام جیسے اَہم فرائض کی رغبت دلاتا ہے اور قلب و نظر میں ذوق و شوق کی فضاءہموار کرتا ہے، صلوة و سلام بذات خود شریعت میں بے پناہ نوازشات و برکات کا باعث ہے۔
آپ نے علم و نور کی ایسی شمعیں روشن کیں جس نے عرب جیسے علم و تہذیب سے عاری معاشرے میں جہالت کے اندھیروں کو ختم کرکے اسے دنیا کا تہذیب یافتہ معاشرہ بنا دیا، آپ نے اپنی تعلیمات میں امن، اخوت، بھائی چارہ، یکجہتی اور ایک دوسرے کو برداشت کا درس دیا۔
مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم نے فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اللہ رسول سے مَحبّت کرے یا اس سے اللہ رسول مَحبّت کریں تو وہ جب بات کرے تو سچی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسی سے اچھا پڑوس نبھائے۔
رسول اکرم پر ایمان لا نا، آپ کی عظمت کو دل میں بسانا، آپ کی محبت سے دل کو معمور کرنا اور آپﷺ کے عشق میں سرمست رہنا دین اسلام کی بنیادوں میں سے ایک اہم بنیادہے جس کے بغیر ایمان میں کمال پیدا نہیں ہوسکتا، اور تقرب ولایت کا مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔ ماہِ ربیع الاول کے امتیاز اور شانِ کی وجہ صاحبِ قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ وہ ماہ سعید ہے جس میں رب کریم نے مومنین پر احسان فرمایا اور اپنے پیارے حبیب کو دنیا میں بھیجا۔ لہٰذا حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کے طفیل ربیع الاول سال کے دیگر مہینوں کے مقابلے میں نمایاں فضیلت و امتیاز کا حامل بن گیا ہے۔ اسے اگر ماہِ میلادِ مصطفیٰ ﷺسے موسوم کیا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا۔
جس رات صاحبِ قرآن یعنی مقصودِ کائنات کا ظہور ہوا اور بزمِ عالم کے اس تاجدار نے زمین و مکاں کو ابدی رحمتوں اور لازوال سعادتوں سے منوّر فرمایا، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس رات کی قدر و منزلت کیا ہوگی! اس کا اندازہ انسانی شعور کے لیے ناممکن ہے۔ لیلة القدر کی فضیلت اس لیے ہے کہ وہ نزولِ قرآن اور نزولِ ملائکہ کی رات ہے جب کہ نزولِ قرآن سیدنا محمد مصطفی ﷺکے قلبِ اَطہر پر ہوا۔ اگر حضور ﷺ نہ ہوتے تو قرآن نازل ہوتا نہ شبِ قدر ہوتی اور نہ یہ کائنات تخلیق کی جاتی۔ دَر حقیقت یہ ساری فضیلتیں میلادِ مصطفی ﷺ کا صدقہ ہیں۔
میلاد عرفِ عام میں ذکرِمصطفےٰ ﷺکا نام ہے خواہ دو آدمی مل کر کریں یا ہزاروں اور لاکھوں۔ اس محفل میں اللہ تَعَالیٰ کی حمد وثنا بیان کی جاتی ہے، تلاوتِ قرآنِ مجید ہوتی ہے اور ذکرِ حبیبِ خدا ﷺ ہوتا ہے اور ان کی نعتیں پڑھی جاتی ہیں اور ان پر صلوٰة وسلام پیش کیا جاتا ہے۔
بخاری شریف میں ہے: "حضرت عروہ فرماتے ہیں: ثوَ ی بَہابو لہب کی باندی تھی جسے اس نے (حضور ﷺ کی پیدائش کی خوشی میں)آزاد کر دیا تھا۔ اس نے حضور ﷺ کو دودھ بھی پلایا۔ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباسؓ نے اسے بہت بری حالت میں خواب میں دیکھاا ور اس سے پوچھا مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابولہب نے کہا: تم سے جدا ہوکر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اسکے کہ پیر کے روز میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں اس لیے کہ میں نے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰ لِہ وَسَلَّم کی پیدائش کی خوشی میں ثوَ یبَہ کو آزاد کیا تھا۔ امام قسطلانی رَحمَة اللہِ تَعَالٰی عَلَیہِ فرماتے ہیں : شبِ میلاد کی خوشی کی وجہ سے جب ابولہب جیسے کافر کا یہ حال ہے کہ اسکے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے حالانکہ ابولہب ایسا کافر ہے جس کی مذمّت قرآن میں نازل ہوءتو حضور ﷺ کے امّتی کا کیا حال ہوگا جو حضور ﷺ کی محبت کی وجہ سے سیرت نبی کی تشہیر اور عمل پر زندگی نچھاور کر دے گا۔