فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ جاری کر دی گئی۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ 12 اگست 2024ء کو پاکستان آرمی ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل(ر) فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے اگلے مرحلے میں فیض حمید کوباضابطہ طور پر چارج شیٹ کردیا گیا ہے، ان چارجز میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزیاں کرتے ہُوئے ریاست کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانا، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں، آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران ملک میں انتشار اور بدامنی سے متعلق پرتشدد واقعات میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید(ر) کے ملوث ہونے سے متعلق علیحدہ تفتیش بھی کی جا رہی ہے، ان پرتشدد اور بدامنی کے متعدد واقعات میں 9 مئی سے جڑے واقعات بھی شامل تفتیش ہیں، ان متعدد پرتشدد واقعات میں مذموم سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت کا الزام بھی شامل ہے، فیلڈجنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران فیض حمید کو قانون کے مطابق تمام قانونی حقوق فراہم کیے جا رہے ہیں۔۔
عمران خان نے مشرف سے لے کر جنرل قمر جاوید باجوہ تک سب کے خوب بوٹ پالش کئے اور جب ان کی دس سالہ منصوبہ بندی کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوٹ گیا تو ادارے کے لئے وہ شرمناک زبان اور رویہ اپنایا کہ ایسی سوچ سے شیطان بھی پناہ مانگ رہا ہے۔ اس سے بڑا خود غرض احسان فراموش بے مروت تاریخ نے کوئی سیاستدان نہیں دیکھا۔ تکبر اور انا پرستی نے اسے وہاں پہنچا دیا ہے جہاں سے شاید ہی کوئی بچ پایا ہو۔ کنٹینر پر کھڑے امیرزادوں کو کئی گولیاں لگیں لیکن سب محفوظ رہے؟
نیچے کھڑے ایک غریب ورکر کو صرف ایک گولی لگی اور وہ چل بسا۔ مگر یہ حقائق ہوشمندوں کے لئے ہیں۔ جہاں شخصیت پرستی آجائے وہاں شعور رخصت ہوجاتا ہے اور برین واشنگ جگہ لے لیتی ہے۔ عمران خان صاحب کے مشیران اور چلوں وظائف سے قطع نظر، کانوں کے کچے اور مقبولیت کے زعم میں گرفتارتمام کارڈز استعمال کر چکے ہیں۔ اب فقط شناختی کارڈ بچا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں خان نے سیاست، طارق جمیل نے تبلیغ، پیرنی نے چلہ، فیض حمید نے فوج، ثاقب نثار نے عدلیہ اور بول اے آر وائی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا نے مورچے سنبھال رکھے تھے مگر تبدیلی، انقلاب، نیا پاکستان، ریاست مدینہ، حقیقی آزادی، کچھ بھی نصیب نہ ہو سکا؟ پہلوں نے جس ملک کو اگر تباہ کرنے میں چالیس برس لگائے اس ایک نے صرف ساڑھے تین سال میں وہ کام کر دکھایا کہ دوسری باری لینے کے لئے مقبولیت بھی ساتھ نہیں دے رہی۔ اس دیوداس کی پارو نے کہا توڑ دو بس اس نے اپنی ٹانگ توڑ دی، اسمبلی توڑ دی مگر مقبولیت کادیو داس آج جیل میں پڑا ہے۔
بھلے لاکھ ایاک نعبد و ایاک نستعین پڑھتے رہو، اگلی آیت مبارکہ بھی پڑھ لیا کروکہ رب ہدایت بھی دے۔ نوجوانوں اور عورتوں کی جو کھیپ رنگیلے نے تیار کر دی ہے اس ملک کو اب دشمن کی ضرورت نہیں رہی۔ نواز شریف کو مدت پوری نہ کرنے دی اور غیر آئینی طریقے سے نکلوا دیا۔ تب اس نے سوچا تھا کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے؟ نواز شریف کہتے رہے مجھے کیوں نکالا کیوں نکالا؟ پھر رنگیلا بھی جب نکالا گیا تو جیل سے بھی چیخوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ مجھے کیوں نکالا۔
وہ محسن جو کل آپ کے مائی باپ تھے آج ان کے خلاف غلیظ مہم چلا رہا ہے؟ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے برحق فرمایا، "، جس کم ظرف پراحسان کرو اس کے شر سے بچو" جو کھچڑی اندر پک رہی تھی اس پر بروقت قابو پانے کے لئے سابق آرمی چیف کو آپ کی نظروں میں برا تو بننا پڑا مگر انہوں نے ملک اندرونی سازش سے بچا لیا۔ جب نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بنایا تو اس وقت ایک سابق مقتدر شخصیت کے دستخط سے منظور شدہ عمران خان پروجیکٹ آخری مراحل میں تھا جسے مقدس ڈاکٹرآئن سمجھ کر آگے بڑھایا گیا۔
پانامہ میں نواز شریف اور ان کی بیٹی کو الیکشن سے پہلے جیل میں ڈال کرعمران خان کووزیراعظم بنانے کا فائنل راونڈ شروع ہوا۔ بیساکھیاں مہیا کی گئیں اورعمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن 2019ء میں جب عمران خان نے جنرل باجوہ سے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم منیر کو ہٹایا جائے۔ جس پر جنرل باجوہ صاحب نے پہلی مرتبہ خطرے کی لائن کراس ہوتے دیکھی مگر خاموشی اختیار کر لی۔ عمران خان بضد رہے اور جنرل باجوہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان کا فیصلہ ماننا پڑا۔
عمران خان نے اس کے چند ہفتوں کے اندر ساری پی ڈی ایم قیادت کو جیل میں ڈال دیا۔ ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا اپوزیشن پر عرصہ دراز تنگ کر دیا گیا ملک کی ساری انتظامی مشینری اور دولت اپوزیشن کو دیوار سے لگانے پر صرف ہوگئی جس کے نتیجے میں ملک کی معیشت بیٹھ گئی۔ فروری 2021ء میں فیصلہ ہوا کہ پاک فوج کا سیاست سے پیچھے ہٹ جانا ہی ملک کے مفاد میں ہے۔ تمام آفیسرز کو ہدایات جاری کر دی گئیں کہ ہم نیوٹرل ہو رہے ہیں لیکن عمران خان کچھ اور ہی پلان بنا رہے تھے۔
آرمی چیف کو وزیر اعظم عمران خان کی اگلے دس سال کی پلاننگ کی بمع ثبوت فائل پیش کی گئی۔ اسی دوران جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ عمران خان درست فرمایا کرتے تھے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ میں بہت برداشت اور صبر ہے۔
جب خان کے دس سالہ پلان پر پانی پھر گیا تو وہ جنرل باجوہ سے بگڑ گئے جس سے اس مقولہ کی حقانیت سامنے آ گئی کہ "جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو"، خدارا، اپنی افواج کی قدر کرنا سیکھیئے، آج فلسطین، لیبیا، لبنان اور اب شام میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہے؟ اندرونی اور بیرونی دشمن ملکر اس وقت پاکستان پر حملہ آور ہیں - ہمارا حال بھی ان ملکوں سے مختلف نا ہوگا اگر ہم نے ہوش کے ناخن نا لئے تو- اپنی اور اپنے ملک کی حفاظت کے لئے اپنی روزانہ کی بنیادوں پر قربانیاں دینے والی افواج کو کمزور مت کریں کیونکہ اس میں نقصان صرف پاکستان کا ہے۔