جب بھی روضہ پاک کی حاضری نصیب ہوتی ہے، روضہ پاک کے مد مقابل پرانے فائیو سٹار "اوبرائے ہوٹل" پر نگاہ پڑتی ہے تو میاں برادران کی جلا وطنی کے بعد شریف فیملی سے ھماری ملاقات یاد آجاتی ہے۔ میاں شریف کا خاندان یوں تو برسوں سے رمضان المبارک کا آخری عشرہ مدینہ منورہ میں گزارا کرتا تھا مگر جدہ جلاوطنی کے بعد میاں نواز شریف شہباز شریف کلثوم نواز اوران کے فیملی ممبران سے یہ ہماری پہلی تفصیلی ملاقات تھی۔
مشرف آمریت کی جانب سے میاں نواز شریف کی زبان بندی تھی، کوئی انٹرویو ملاقات اخبارات کی زینت بننے کی اجازت نہ تھی۔ نواز شریف میڈیا پر مکمل بین تھے۔ یہ 2001ءکی بات ہے۔ ہم امریکہ سے عمرہ پر آئے ہوئے تھے کہ مجید نظامی صاحب نے فون پر ہمیں میاں برادران سے ملاقات کو کہا۔ مسجد نبوی کے قریب ترین اوبرائے ہوٹل میں قیام پذیر شریف خاندان کو ملنے گئے تو پہلی ملاقات کمرے میں بیٹھے میاں نواز شریف اور بیگم کلثوم صاحبہ سے ہوئی۔ سلام دعا کے بعد مختصر حال احوال ہوا، میاں شہباز شریف بھی آ گئے۔
بیگم کلثوم نواز سے متعدد بار ملنا ہوا لیکن تفصیلی گفتگو میاں شہباز شریف سے ہوئی، نصرت شہباز اور بیٹیوں سے بھی ملے، مریم نواز بھی گود میں کم سن بیٹی اٹھائے ہوئے ملیں، کیپٹن صفدر اور ان کے مرحوم والد بھی ملے۔ مریم اور میری بھانجی لاہور کالج فار وومن میں کلاس فیلو تھیں، اس حوالے گپ شپ ہوئی، دوسرے روز بھی میاں نواز شریف اور اہل خانہ نے ملاقات کی۔ کھڑکی سے روضہ اطہر کا نظارہ سبحان اللہ تھا۔
میاں برادران کی مشرف آمریت میں جلا وطنی کٹھن ترین وقت تھا۔ اس دور میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ نواز شریف کبھی دوبارہ اقتدار میں تو درکنار وطن بھی لوٹ سکیں گے۔ مگر آج 2023ءمیں وقت نے دکھایا کہ نواز شریف بار بار پلٹ کر آئے۔ وقت کسی کی جاگیر نہیں، وقت بادشاہ ہے اور وقت ہی فقیر ہے۔ جسے چاہے کرسی پر بٹھا دے، جسے چاہے جیل پہنچا دے۔ کچھ لوگ 9 مئی کے مجرموں کو معافی کی حمایت میں لکھ اور بول رہے ہیں؟ کیاعمران خان نے معافی مانگی ہے؟ نو مئی کے سنگین واقعات میں ملوث افراد غدار ہیں اور ان کو برین واش کرنے والا ان کا مرشد دشمنوں کا ٹاوٹ اور غدار ہے۔ اس کو آزاد کرنا یا دوبارہ سیاست میں آنے کی اجازت دینا ملک سے غداری ہے۔
انتقام کی سیاست کوئی پسند نہیں کرتا اور نہ ہی میاں نواز شریف انتقام لینے آئے ہیں مگر سانحہ نو مئی ملک کی سالمیت اور سکیورٹی پر حملہ ہے اور ان غداروں کی سزا کے فیصلوں کا حق بھی سکیورٹی اداروں کے پاس ہونا چاہئے۔ اسی عدلیہ نے کبھی غدار کو صادق و آمین کا سرٹیفکیٹ بھی دیا تھا۔ اور آج فارن فنڈنگ کیس سے لے کر عثمان بزدار مانیکا گینگ تک کرپشن کے ریکارڈ بھی توڑے ہیں۔ نواز شریف کو چور کے بیانیہ سے خان نے اقتدار تو پا لیا مگر ایک چور کیوں کر چور کی چوری ثابت کر سکتا ہے؟ دیوتا اور مرشد بنا بیٹھا ہے، اسے نو مئی کا سانحہ بھی جھوٹ لگتا ہے۔ لیکن نہ ملک اسے معاف کرے گا نہ فوج۔
کلثوم نواز بہت زیرک خاتون تھیں۔ میاں نواز شریف کو وطن واپسی پر یقیناً اہلیہ کی جدائی ستاتی ہوگی۔ زندگی کی ساتھی کا ساتھ سیاست کے ہاتھوں بڑی بے رحمی سے چھوٹ جائے اور تدفین کا موقع بھی نہ دیا تو جدائی کا دکھ پچھتاوے اور صدمے سے دوچار ہوجاتا ہے۔ بیگم کلثوم آج حیات ہوتیں تو وہ بھی نو مئی کے واقعہ کو کسی صورت معاف نہ کرتیں۔ یہ انتقام نہیں یہ ملک کی سالمیت سے وفا کا تقاضہ ہے۔ نو مئی کے حملے نواز شریف کے گھر پر نہیں ہوئے تھے یہ حملے سکیورٹی ادارے کی رٹ اور فوجی تنصیبات پر ہوئے تھے، نواز شریف کے پاس معافی کا اختیار ہے اور نہ وہ معاف کر سکتے ہیں۔ البتہ ذاتی رنجش اور زیادتیوں کو معاف کرنے کا اختیار ان کے پاس ہے۔
21 اکتوبر کی شام لاہور کے مینار پاکستان میں جب نواز شریف نے اپنی تقریر شروع کی تو بعض مبصرین اس امکان کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ 2017ءمیں اقتدار سے بے دخلی کے بعد اپنی مزاحمت کی سیاست جاری رکھیں گے۔ تاہم اس تقریر میں وہ آئین پر عملدرآمد کے لیے ریاستی اداروں اور سیاستدانوں کو متحد ہونے کا پیغام دیتے رہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ ان کا دل زخموں سے چور ہے مگر اس کے باوجود اس میں انتقام کی تمنا نہیں۔ نواز شریف کا فوکس معیشت کی بحالی ہے۔
اپنے خطاب میں نواز شریف بار بار دعا کرتے بھی دکھائی دیے کہ اللہ میرے دل میں انتقام کا جذبہ ابھرنے بھی نہ دے۔۔