آرمی چیف جنرل قمر باجوہ آخری خطاب کر کے رخصت ہو رہے ہیں۔ ویل ڈن سر آپ کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ آپ نے ملک کی سیاسی سنگین صورتحال میں بھی برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں۔
متکبر سیاستدانوں کو چاہئے اب ہو شمندی سے کام لیں اور عوام کو فوج کے خلاف متنفر کرنے کا غلیظ کھیل بند کریں۔ اس منافقانہ سیاست سے اداروں کے وقار کو کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ سیاسی مقبولیت کا جنازہ دھوم سے نکل رہا ہے۔ بیشک اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا"نبی کریم نے فرمایا: "وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا"۔۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے حاکم وقت کے سامنے اس کے محل کی کرپشن بے نقاب کر کے کلمہ حق ادا کیا۔ حاکم وقت قہر میں آگیا اور جنرل صاحب کا تبادلہ کر دیا، آج وہی مردمجاھد جنرل عاصم منیر ملک کا سپہ سالار ہے۔ بے شک رب جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کر دے۔ خان صاحب کے مقبولیت پریشر سے لانگ مارچ کا مقصد فوری الیکشن کادباؤتھا۔
موصوف کو خوش فہمی تھی کہ اقتدار میں آکرمرضی کا آرمی چیف لگائیں گے مگرمنصوبہ فلاپ ہوا۔ آپ نے امریکی سازش کا بیانیہ کیش کرایا مگر امریکنوں کے سامنے مکر گئے کہ وہ بیانیہ پرانی بات ہوگئی ہے، فوج کی سازش کا بیانیہ بنایا پھر اس پر بھی یو ٹرن لے لیا کہ چلو مانتا ہوں فوج نے میرے خلاف سازش نہیں کی مگر اس حکومت کو آنے سے تو روک سکتے تھے؟
پھر آپ نے مرضی کا آرمی چیف لگانے کے لئے فوری الیکشن کے لئے لانگ مارچ سے دباؤ ڈالنے کی غیر آئینی کوشش کی وہ بھی ناکام ہوگئی اور اب آپ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق شرمندگی سے کہہ رہے ہیں کہ صدر نے میرے حکم سے سمری پر دستخط کئے ہیں؟ صدر علوی وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے سرکاری جہاز پر وزیر اعظم کی اجازت سے لاہور جاتے ہیں اور سمری پر دستخط آپ کی مرضی کے محتاج تھے؟ بس کریں اور کتنے کھیل کھیلیں گے اس ملک کے ساتھ؟ پہلوں کو چور چور کہتے ہلکان نہیں ہوئے اب تک؟ میاں بیوی اور مانیکا گینگ نے مل کر بہت رسوا کیا ہے تبدیلی اور ریاست مدینہ کے بیانیہ کو۔
جنرل عاصم منیر میرٹ پر آئے ہیں اور پورا ملک ان کی تقرری پر خوش اور مطمئن ہے البتہ آپ کی ایک ایماندار سپہ سالار کے آنے پر جان نکل رہی ہے۔ سید عاصم منیر کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ستمبر 2018ءمیں ترقی دی گئی تھی اور انھوں نے کچھ عرصے کے لیے بطور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی بھی کام کیا۔
راولپنڈی کے علاقے ڈھیری حسن آباد سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نے اپنی سروس کا آغاز آفیسرز ٹریننگ سکول کے 17ویں کورس میں منگلا سے کیا تھا جس کے بعد انھیں فرنٹئیر فورس رجمنٹ کی 23ویں بٹالین میں کمیشن دیا گیا تھا۔
عاصم منیر نے محض آٹھ ماہ کے لیے بطور ڈی جی آئی ایس آئی اپنے فرائض انجام دئیے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے دور حکومت میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو فقط آٹھ ماہ تعیناتی کے بعد اس عہدے سے ہٹا دیا گیا تھااور ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کر دیا گیا تھا۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کا نام لے کر انھیں بطور آرمی چیف تعینات کیے جانے سے منع کیا تھا۔ عاصم منیر ایک آوٹ سٹینڈنگ، افسر ہیں۔
جنرل عاصم منیر ایک لائق طالب علم تھے اور 1974 میں صرف دو سال کے اندر قرآن حفظ کرکے اپنی ذہانت ثابت کر دی تھی۔ ، جنرل عاصم منیر کے والد سید سرور منیر راولپنڈی کے علاقے لال کڑتی کے سکول میں پرنسپل تھے۔ انہوں نے اپنے محلے میں مسجد بنوائی۔ سپہ سالار سید عاصم منیر ادارے اور ملک کے لئے نیک بخت ثابت ہوں گے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے جس جرتمندی سے بنی گالہ میں کرپشن کو ایکسپوز کیا یہ ان کے ایمان دارانہ اور پیشہ وارانہ کردار کی دلیل ہے۔ اسلام عمل مانگتا ہے۔
بھٹوسے خان تک بہت اسلامی ٹچ کا کھلواڑ ہو چکا، عوام کو بھی جذباتی اندھی پیروی سے اب آنکھیں کھول لینی چاہئیں۔ "سیدحافظ"کو بھی اسلامی ٹچ کی سیاست سے دور ہی رکھیں۔۔ ایک مسلمان کو اپنے عمل سے ثبوت دینا پڑتا ہے نا کہ مذہبی جذباتی نعروں اور القابات سے امیدیں وابستہ کر لی جائیں۔ تحریک انصاف والے جنرل باجوہ کو کبھی اپنا باپ کہتے تھے، امید ہے آرمی چیف عاصم منیر کو بھی اپنا باپ سمجھیں گے، باپ ہونے کی جھلک وہ بنی گالہ میں دکھا چکے ہیں۔
سمری کے ساتھ بس 6 گھنٹے ہی کھیلنا تھا، اب کھیل شیل جادو ٹونے ختم ہوگئے، بشری بی بی کا سوشل میڈیا سیکرٹری ارسلان بیٹا بھی اب خودکو حافظ کہے گا۔ اب سارے تعویز الٹے پڑ گئے۔ اب کالے علم کاتوڑ نوری علم سے ہونے کی "گھڑی " شروع ہے۔ جنرل باجوہ صاحب نے درست کہا " جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی اور اب اس جھوٹے بیانئے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے"۔ عمران خان کے تمام بیانئے فلاپ ہوئے اب گھر بیٹھ کر الیکشن کا انتظار کریں۔
سونامی، نیا پاکستان، تبدیلی، ریاست مدینہ، انقلاب، ہم کوئی غلام ہیں؟ اسلامی ٹچ، جہاد، حقیقی آزادی کے بعد " فیس سیونگ "بیانیہ متوقع ہے۔ میاں نواز شریف کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے خود لندن جانے کی اجازت دی تھی۔ چور کا بیانیہ تو خوب کیش کرایا مگر ایک پیسہ نہ نکلوا سکے الٹا اپنے چور کو لندن بھیج دیا؟ ڈاکٹر یاسمین راشد کا بیان یاد ہے؟ کہتی تھیں میں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ پر قائم ہوں، ہم نے نواز شریف کی بیماری اور علاج سے متعلق رائے دی مگر کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ چل پھر نہیں سکتے۔
حکومت اور عدالت نے انہیں میڈیکل بورڈ کی سفارش پر ہی علاج کے لیے جانے کی اجازت دی۔۔ نہ چوروں کی ایک پائی ثابت کر سکے نہ نوے دن میں ملک میں تبدیلی لا سکے۔ مساوی انصاف مساوی تعلیم مساوی صحت کچھ بھی تو نہ دے سکے۔ پچاس لاکھ گھر کر وڑ نوکریاں؟
سب جھوٹ فراڈ تھا۔ الٹا توشہ خانہ بیچ کھایا، صادق و آمین جیسے مقدس اعزاز کی توہین کی۔ سوشل میڈیا پر نئی نسل کو گالم گلوچ کی وہ تربیت دی کہ گٹر کے منہ کھول دئیے۔ اب اگلے سال الیکشن تک آرام کریں مقبولیت کا زعم ہے تو پھر گھبراہٹ اور عجلت کس بات کی جناب؟