اللہ اور اس کے حبیبﷺ کے گھر تواتر سے حاضری نصیب ہو رہی ہے الحمد للہ۔ 1993ءمیں رب کو شاید ہماری ہجرت کا خلوص بھاہ گیا تھا۔ امریکا ڈاکٹری کی ڈگریاں مکمل ہوتے ہی ڈاکٹر صاحب سے سعودی عرب ہجرت کی گزارش کی۔ امریکا میں لاکھوں ڈالروں کی جاب کو ٹھکرا کر چند ہزار ریال کی ملازمت کو ترجیح دی۔
آج تک رب بھی اداسی اور جدا پر نظر کرم رکھے ہو ئے ہے۔ لوگ دنیا بھر میں سیر سپاٹوں کو vacation کہتے ہیں، ہماری وکیشن مکہ مدینہ کی گلیاں ہیں۔ ہم عشق و محبت کا فلسفہ تو نہیں جانتے البتہ یہ ضرور پڑھ رکھا ہے کہ عشق و دیوانگی رب تک رسا دلانے کا سبب ہے۔
خالق حقیقی کی اپنے حبیب ﷺ سے محبت کی معراج تھی کہ صدیوں کا سفر لمحوں میں طے کراکے سدرة المنتہیٰ تک پہنچا دیا۔ اس مقام عالی کا شرف بجز محمد رسول ﷺ اللہ کسی نبی کو حاصل نہ ہو سکا۔ حضرت علامہ اقبالؒ اپنے اشعار میں فرماتے ہیں، حضرت موسیٰؑ نے پروردگار سے کہا اے رب میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں مگر خدا نے کہا تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ جب حضرت موسیٰؑ نے تقاضا کیا تو خدا کی تجلی سے طور جل گیا اور موسیٰؑ بیہوش ہو گئے۔
اس واقعہ سے اقبال نے یہ مضمون اخذکیا کہ حضرت موسیٰ ارِنی، کہہ کر دیدار الٰہی کا تقاضا کرتے تھے۔ یہ تقاضا ان کے لیے جائز تھا کیوں کہ وہ پیغمبر تھے مگر میں عام انسان ہوں اس لیے تقاضا نہیں کرتا حالانکہ دیدار خداوندی کا خواہش مند ہوں۔ یعنی عاشق محبوب کے دیدار کا مشتاق ہوتا ہے، ملاقات کے لیے بے چین ہوتا ہے اور جب یہ تڑپ اپنی منزل کو پہنچنے لگے تو محبوب عاشق کو اپنے پاس بلا لیتا ہے۔ ایسی ہی کیفیت اقبال کی موجودہ صدی کی ایک نوجوان طالبہ میں دیکھی گئی۔
ہماری لخت جگر مومنہ چیمہ بیس سال کی عمر میں ہی معرفت کے اس مقام تک پہنچ چکی تھی جہاں وہ تنہائیوں میں باغات اور گھنے درختوں کے جھرمٹ میں نکل جاتی اورگھنٹوں اشکبار آنکھوں سے آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے خالق سے راز و نیاز میں غرق رہتی۔ ایک شام اس کی ایک امریکی دوست اس کا تعاقب کرتے ہوئے درختوں کے جھرمٹ میں جا نکلی اور مومنہ کو اس حال میں پا کر پوچھا یہاں کیا کر رہی ہو۔
مومنہ نے اشکبار آنکھوں اور ڈوبتی آواز میں کہا کہ کاش کبھی یہ آسمان کھل جائے اور اسے دیدار الٰہی نصیب ہو جائے۔ یہ وہ تڑپ تھی جس کا ذکر اقبال اپنے فلسفہ خودی اور معرفت و تصوف میں کر چکے ہیں۔ مومنہ پچیس برس کی عمر میں وہ مقام پا گئی کہ اس کے بعد شاید اس کا اس جہان میں مزید قیام اس کے لیے بوجھ بن جاتا۔ مقام معرا ج کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔
ایک وہ صورت جو محمد رسول اللہﷺ کو نصیب ہوئی، اس کے بعد آپ کے عاشقان اور صدیقین و شہدا، مقربین و صالحین کو اپنی اپنی حیثیت و مقام کے مطابق حاصل ہوتا رہا۔ اولیا کرام کے عرس منانے کے پس پشت بھی یہی فلسفہ معراج پنہاں ہے۔ عاشق جب معشوق سے ملتا ہے تو دونوں جہانوں میں جشن کا سماں ہوتاہے۔ محبوب کا دیدار ہی تو حاصل عبادت ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:
عشق تری انتہا، عشق مری انتہا
تو بھی ابھی ناتمام، میں بھی ابھی ناتمام
ہر انسان کی معراج کا جذبہ عشق ہے۔ اگر کسی میں یہ جذبہ نہیں تو اس کی شخصیت تکمیل سے محروم ہے۔ اقبال کے بقول چونکہ اس وقت کسی شخص میں یہ جذبہ دکھائی نہیں دیتا اس لیے سب انسانوں کی شخصیات نا مکمل نظر آتی ہیں۔ اللہ سے بھی دنیا مانگنے کا لالچ اور دنیا میں جو محبوب بنا رکھے ہیں، ان سے بھی دنیا وی مفادات و اغراض وابستہ۔ خلوص، قربانی، ایثار، پیار، رحم، ہمدردی کا نام محبت ہے جبکہ عشق و جنون فقط قربانی کا نام ہیں۔
صحابہ کرامؓ جب بھی حضورﷺ سے مخاطب ہوتے، یا رسول اللہ ﷺ آپ پر ہمارے والدین جان مال اولاد قربان، کہنے کے بعد مدعا بیان فرماتے۔ پہلے خود کو آپ کے قدموں میں نچھاور کر تے پھر عرض کرتے۔ عاشق وصل کے لیے تڑپتا ہے اور پھر جو پل بھی اس دنیا میں گزارتا ہے کانٹوں میں بسر کرتا ہے۔ وصل کی جب تڑپ جنون و دیوانگی کو چھونے لگے تو ملک الموت کو حکم ہوتا ہے کہ جاؤ میرے فلاں عاشق کو میرے پاس لے آؤ۔ اب اس سے جدائی مزید برداشت نہیں ہو رہی۔ اور ہمارا وعدہ ہے کہ ہم کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ ایک موت عاشق کی ہوتی ہے اور ایک انسان کی موت۔
عاشق لڈیاں ڈالتا ہوا جاتا ہے کہ مومن کے لیے یہ دنیا قید خانہ ہے جبکہ ایک عام انسان موت کے نام سے گھبراتا ہے۔ یہ گھبراہٹ جذبہ محبت کی نفی ہے۔ حضورﷺ اپنی امت سے بھی بے مثال محبت فرماتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا مجھے قرآن سناؤ، میں نے عرض کی، یا رسول اللہﷺ کیا میں آپ کو قرآن سناؤں حالانکہ یہ آپ پر نازل ہوا ہے؟
آپ نے فرمایا میرا دوسروں سے قرآن سننے کو جی چاہ رہاہے،۔ چنانچہ میں نے آپ کو سورة النساءسنانا شروع کی اور جب میں بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو ان لوگوں کا حال بتانے کو بطور گواہ طلب کریں گے، پر پہنچا تو کسی نے میرے پہلو کو دبایا جس پر میں نے سر اٹھایا اور کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کی آنکھیں اشکبار ہیں، آنسو مسلسل بہہ رہے ہیں۔ یہ ہے آقا محمد رسول اللہﷺ کی حالت مبارک اپنی امت کے لیے۔ آپ نے فرمایا اے میری امت روز حشر مجھے خدا کے سامنے شرمندہ نہ کرانا۔
نبی کریمﷺ جس وقت اس جہان فانی سے کوچ فرما رہے تھے آپ کی زبان مبارک پر میری امت میری امت، کے الفاظ تھر تھرا رہے تھے۔ یا اللہ روز حشر میری امت کو بخش دینا۔ نبی کریمﷺ نے اپنی دنیا کے لیے کبھی کچھ نہ مانگا، بس جب بھی مانگا اپنی امت کی بخشش کا ہی سوال کیا۔ جتنا پیار محمد رسول اللہﷺ اپنی امت سے فرماتے ہیں، اس کی نظیر دو جہان میں نہیں مل سکتی۔
حضور کی لاڈلی امت کی کاہلی کا مظاہرہ فرمائیں کہ حضرت موسیٰؑ کو بھی حضور پاکﷺ کو مشورہ دینا پڑاکہ اللہ تعالیٰ سے پچاس کی بجائے پانچ نمازوں کی عرض کریں، آپ کی امت پچاس نمازوں کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی۔ اللہ تعالیٰ بھی قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ بے شک نماز ایک مشکل عبادت ہے لیکن ان لوگوں کے لیے نہیں جو پرہیز گار ہیں اور پھر یہ بھی فرما دیا کہ مصیبت پر صبر اور نماز سے مدد لو۔ یعنی فقط صبر اور نماز دو ایسی عبادتیں ہیں جو مصیبت میں انسان کو سکون پہنچا سکتی ہیں۔
انسان کو یہ دونوں کام ہی مشکل معلوم ہوتے ہیں۔ محبت ہو جائے تو مشکل کام آسان ہو جاتے ہیں۔ محبت کا سفر شروع ہو جائے اور استقامت نصیب ہو جائے تو محبت کی معراج عطا ہو کر رہتی ہے۔