وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے بھارت گئے ہوئے ہیں۔ وہ 2011 کے بعد انڈیا کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ ہیں۔ بھارتی میڈیا مختلف اسباب کی بنا پر بلاول بھٹو کے دورے میں کافی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
ان کا دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے، جب جوہری طاقت رکھنے والے پڑوسیوں کے درمیان تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار ہیں۔ بلاول بھٹو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مبینہ فرقہ وارانہ سیاست اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا سلوک پر بھی سخت نکتہ چینی کر چکے ہیں۔
سال 2019ءمیں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دینے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ایک دھماکے میں کئی بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے لیے نئی دہلی نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی انسان ایسا ہے جو دشمنی، جنگ، فساد، نفرت اور انتقام کی حمایت کرتا ہے۔ خلقِ خدا دنیا سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہے۔ کوئی شخص ماتم، غم، مصیبت اور پریشانی کو گلے لگانا نہیں چاہتا۔ ہر انسان خوش اور پ±رامن رہنے کا آرزومند ہے، اس کے باوجود دنیا جہنم بنتی جا رہی ہے۔
پاکستان جو کبھی جنت کا ٹکڑا تھا، آزمائشوں میں گھر چکاہے۔ مسلمانوں پر تو محض الزام ہے یہود و نصاریٰ، ہندو، سکھ اور دیگر اقوام کی تاریخ بھی نفرت اور انتقام سے بھری پڑی ہے۔ ہوسِ اقتدار اور جذبہ انتقام میں کوئی پیچھے نہیں رہا۔ نہ تاریخ بدلی جا سکتی ہے اور نہ ہی فطرت میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔ ہوسِ اقتدار اور جذبہ انتقام دو ایسے وحشی رویے ہیں جو دنیا میں فساد اور قتل و غارت گری کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ امن کے ڈائیلاگ دنیا کی تمام حکومتیں بولتی ہیں مگر امن کی شروعات کا حوصلہ کسی میں نہیں۔
امن کے لئے کشمیر کو آزاد کرنا پڑتا ہے۔ امن کے لیے ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسے بے شمار بے گناہ قیدیوں کو آزاد کرنا پڑے گا۔ امن کے لئے افغانستان میں جنگ بندی کرنا ہوگی۔ امن کے لئے ایران کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے باز آنا ہوگا۔ امن کے لئے فلسطین کو ایک آزاد مسلمان ریاست تسلیم کرنا ہوگا۔ بھارت اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر سے اپنا تسلط ختم کر دے اور کشمیریوں کو ان کے مستقبل کا فیصلہ سونپ دے تو برصغیر کے خطہ میں امن کی ضمانت مل سکتی ہے۔ پاکستان کی بھارت کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں۔
مسئلہ کشمیر حل ہونے سے دشمنی دوستی میں بدل جائے گی، نفرتیں خو بخود دم توڑ جائیں گی۔ بصورت دیگر امن اور دوستی کی بات محض ڈرامہ بازی ہے۔ جہاں تک پاکستان کے اندر امن کا معاملہ ہے تو اس کی بدامنی میں بھی بیرونی ہاتھ ملوث ہیں۔ یہ وہ قوتیں ہیں جو پاکستان کو معذور کر دینا چاہتی ہیں۔
پاکستان میں بدامنی کا آغاز کراچی سے ہوا۔ اگر کسی ملک یا جماعت کو امن مقصود ہے تو اصولوں پر سیاست کرنا سیکھے۔ معاہدوں اور قراردادوں کا احترام کرے۔ قوانین اور ضوابط کو تسلیم کیا جائے۔ آئین و قوانین کی پاسداری کی جائے۔ اداروں کی حدود متعین کی جائیں۔ نظام کو پاک کیا جائے۔ انسان کو انسان سمجھا جائے۔ فقط ڈائیلاگ سے امن و آشتی نہیں مل سکتی۔ زبانی جمع خرچ سے امن کی آشا جیسے اشتہارات تو چلائے جا سکتے ہیں مگر مستقل بنیادوں پر امن نہیں لایا جا سکتا۔ امریکہ کے خلاف زہر اگلنے سے ووٹ اور حمایت تو مل جاتی ہے مگر امریکہ سے نجات نہیں مل سکتی۔
بھارت کے خلاف تعصبانہ گفتگو سے جذبہ حب الوطنی تو پیدا کیا جا سکتا ہے مگر کشمیر آزاد نہیں کرایا جا سکتا۔ باتوں سے کچھ نہیں ہوگا، امن کے لئے سب سے پہلے آستین کے سانپوں کا زہر نکالنا ہوگا۔ امن کے دشمن گھر کے اندر بیٹھے ہیں، کرائے کے پٹھو، شرافت کا لبادہ اوڑھے قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ پاکستان امن، پیار اور دوستی پر یقین رکھتا ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت سکھ یاتریوں کو ویزے جاری کرنا اور ان کی بے مثال مہمان نوازی ہے جبکہ پاکستانیوں کو بھارت میں بزرگانِ دین کی درگاہوں پر جانے کے لئے بھی ویزہ نہیں دیا جاتا۔
امریکی پاسپورٹ ہولڈر پاکستانیوں کے لئے بھارتی ویزہ قریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ بھارت جانا مذہبی فریضہ نہیں مگر کشمیر کو آزاد کرانا مذہبی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ بھارت میں رشتے داروں سے تو کٹ کر جیا جا سکتا ہے مگر شہ رگ کٹ جائے تو جینا ممکن نہیں۔ نئی نسل کا امن اور سکون بالی وڈ کی دنیا ہے۔ قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو امن کے تمام مواقع مہیا کر رکھے ہیں مگر ہوسِ اقتدار اور جذبہ انتقام نے انسان کو کبھی بھی امن و سکون کے ساتھ رہنے نہیں دیا۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا دورہ بھارت نتیجہ خیز ثابت ہو یا نہ ہو مگر ایک دہائی کے بعد ایک نوجوان وزیر خارجہ کی بیرونی دنیا سے تعلقات کی بحالی کی کوشش پاکستان کی جانب سے مثبت کاوش ضرور ہے۔