محترمہ بے نظیر بھٹو کی شخصیت بہت سحر انگیز تھی۔ وہ 1953ء کو پیدا ہوئیں اور 2007ء میں شہادت پائی۔ ان کی شہادت کے بعد آج تک پاکستان کو کوئی ایسا لیڈر نہیں مل سکا جس کی پوری دنیا میں پہچان ہو۔ محترمہ واحد خاتون تھیں جن کی شہادت پر ان کے سیاسی مخالفین کے گھروں میں بھی سوگ منایا گیا۔ 27 دسمبر2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں اپنی شہادت سے کچھ دیر پہلے محترمہ بینظیر نے کہا کہ کہ پنڈی نے مجھے بہت دکھ دیئے ہیں اور کچھ خوشیاں بھی، انہوں نے کہا کہ پی پی کی تاریخ جدوجہد سے بھری پڑی ہے، میرے والد جابر قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہوئے اور تختہ دار پرر چڑھا دیئے گئے۔ میرے دو بھائی قتل ہوئے۔ میری ماں کا لاٹھیوں سے سر پھاڑ دیا گیا۔ مجھے قدم قدم پر اذیتیں دی گئیں اور ٹارچر کیا گیا۔ میں جیلوں کے اندر رہ کر بھی جمہوریت کیلئے لڑتی رہی۔ آمروں نے ہمیشہ جمہوریت کا راستہ روکا۔ میرے کراچی کے جلسے میں دھماکے کرائے گئے، ہم نے اپنے سینکڑوں کارکنوں کے لاشے اٹھائے۔ سیاسی یتیم کہتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اب کبھی واپس نہیں آئیں گی لیکن میں تمام خطرات کو ایک طرف رکھ کے واپس آئی ہوں کہ میں موت سے نہیں ڈرتی اور اپنے وطن کے لوگوں کے ساتھ جینا مرنا چاہتی ہوں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے شہادت سے چند دن پہلے وسیب کا دورہ کیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے شہادت سے تین دن قبل 24 دسمبر 2007ء کو رحیم یارخان میں جلسہ سے خطاب کیا اور واضح لفظوں میں کہا کہ وسیب سے ظلم بند ہونے چاہئیں۔ ناجائز الاٹمنٹیں ختم ہونی چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وسیب کے 20 لاکھ پڑھے لکھے لوگ ڈگریاں ہاتھوں میں لے کر پھر رہے ہیں، روزگار نہیں دیاجا رہا، ہم روزگار دیں گے، نشتر پُل بنائیں گے، ٹیکس فری زون بنائیں گی، خواجہ فرید کی دھرتی کو حقیقی معنوں میں محبت اور امن کا گہوارا بنائیں گے۔ محترمہ نے اسے دن بہاولپور کے جلسے میں بھی خطاب کیا انہوں نے اس موقع پر حضرت محکم الدین سیرانی ؒ، حضرت جلال الدین سرخ بخاریؒ اور اس خطے کے اولیاء کو سلام پیش کیا اور اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم بہاولپور کا احسان کبھی نہیں بھول سکیں گے کہ ہمارے خاندان کے ایک فرد کو انگریز سامراج نے سندھ بدر کیا تو ریاست بہاولپور نے پناہ دی۔ محترمہ نے 25 دسمبر کو لودھراں کے جلسے میں خطاب کیا، یہاں بھی انہوں نے کہاکہ سانحہ کارساز کی ذمہ دار حکومت ہے اور سینکڑوں افراد کی شہادت کا ذمہ دار پرویز مشرف ہے۔ محترمہ نے اسی دن مظفر گڑھ کے جلسے میں بھی خطاب کیا، اور کہا کہ مظفر گڑھ بہادر لوگوں کی سرزمین ہے۔ اس خطے کے سردار کوڑا خان جتوئی نے ہزاروں ایکڑ زمین تعلیم کے لئے وقف کر کے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اس خطے کے لوگوں کے بہت احسانات ہیں۔ یہ خطہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کا خطہ ہے۔ محترمہ نے ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کے پٹھانے خان کو خراجِ تحسین پیش کیا کہ میرے والد اور میں خود ان کا صوفیانہ کلام بہت محبت اور عقیدت سے سنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوفیاء نے ہمیشہ محبت کا درس دیا ہے۔ یہ خطہ صوفیاء کی سرزمین ہے، انسانوں سے پیار کرنے والوں کی سرزمین ہے، ہم بر سر اقتدار آ کر اس خطے کو مکمل شناخت اور اس کے حقوق دیں گے۔
سندھ اور وسیب کے درمیان دکھ کی سانجھ قدرتی اور فطرتی طور پر موجود ہے، اسی سانجھ نے دونوں کو اپنائیت کے دھاگے میں پرو رکھا ہے۔ اسی بات کا سب سے زیادہ احساس دیدہ ور سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو تھا۔ انہوں نے جس طرح اپنی ماں دھرتی سندھ سے محبت کی اُسی طرح وسیب سے بھی محبت کی۔ لیکن آج مہاجر صوبے کے خوف سے سندھ کی قیادت نے وسیب سے آنکھیں پھیر لیں ہیں لیکن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سندھ کو جو بھی خطرات ہوں، ان کا مقابلہ باہمی اتفاق سے کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو گزشتہ پانچ سالوں میں بہتر موقع ملا تھا، وہ اپوزیشن میں تھی، وہ ن لیگ کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر کہہ سکتی تھی کہ تم نے پنجاب اسمبلی سے قرارداد پاس کرائی، ہم نے صوبہ کمیشن بنایا، تم نے کمیشن پر اعتراض کیا اور کہا کہ بر سر اقتدار آ کر ہم کمیشن بھی بنائیں گے اور صوبہ بھی بنائیں گے، پانچ سال ختم ہوگئے، وعدہ کیوں پورا نہ ہوا۔ آج بھی وہ تحریک انصاف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتی ہے کہ 100 دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا، دو سال ہو گئے، تم نے کیوں وعدہ پورا نہیں کیا؟ پیپلز پارٹی کہہ سکتی تھی کہ سینیٹ سے صوبے کا بل پہلے سے پاس ہے، صرف قومی اسمبلی اور پنجاب و خیبرپختونخواہ کی صوبائی سے بل پاس کرانا ہے، جہاں وفاقی حکومت کی اکثریت ہے۔ پیپلز پارٹی کہہ سکتی ہے کہ تم صرف وسیب کے ہی نہیں پوری قوم کے مجرم ہو۔
بھٹو خاندان خصوصاً بے نظیر بھٹو کا خانپور سے بہت تعلق ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم چھوٹے ہوتے تھے، محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ رئیس عبدالرحمن کھوکھر کے گھر پر تشریف لائیں تو رئیس صاحب نے نوجوانوں کی ڈیوٹیاں لگائیں کہ تم نے سکیورٹی کے فرائض انجام دینے ہیں۔ کچھ لوگ مہمانوں کی خدمت پر مامور تھے۔ مجھے یاد ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے دونوں مرتبہ وہاں خطاب کیا۔ مجھے یاد ہے کہ سٹیج رئیس عبدالرحمن صاحب کی کوٹھی کی چھت پر بنایا گیا تھا اور نیچے رئیس صاحب کی بہت بڑی حویلی تھی، جس میں 25، 30 ہزار لوگ آ سکتے تھے۔ وہ جلسے مجھے آج بھی یاد ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں رئیس عبدالرحمن صاحب کو بابائے سیاست کا لقب دیااور خانپور کی بہت تعریف کی اور کہا کہ خانپور اولیاء کی سرزمین ہے، علماء کی سرزمین ہے، اسی شہر سے ریشمی رومال تحریک شروع ہوئی، مولانا عبید اللہ سندھی خانپور کے قصبہ دین پور شریف میں آسودہ خاک ہیں۔ ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ میاں بیوی کا اختلاف ہوا، محترمہ وزیراعظم تھیں، آصف زرداری بلاول اور بختاور کو لے کر کراچی چلے گئے تو اس موقع پر دین پور شریف (خانپور) کے سجادہ نشین مولانا سراج احمد دین پوری کراچی جا کر بچوں کو واپس لائے اور میاں بیوی کی صلح بھی کرائی۔ اس کے بعد محترمہ نے پوری زندگی دین پور شریف کا احترام کرتی رہیں۔