Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. All Parties Conference Aur Bilawal Bhutto

All Parties Conference Aur Bilawal Bhutto

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پچھلے دنوں آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں مسلم لیگ ن کے سزا یافتہ قائد میاں نواز شریف کا خطاب آگے بڑھ گیا۔ اور بلاول بھٹو کی میزبانی پیچھے رہ گئی۔

آل پارٹیز کانفرنس کے نتیجے میں 11 جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم کے نام سے سامنے آیا۔ میاں نواز شریف کے خطاب کو کچھ تجزیہ نگاروں نے نورا کُشتی کا نام دینے کی کوشش کی، ان کا موقف تھا کہ ایک سکیم کے تحت نواز شریف مقتدر قوتوں کے خلاف بات کرتے ہیں اور شہباز شریف مذاکرات کرتے ہیں۔ اس بات میں صداقت بھی ہو سکتی ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ قرار دینے کے مسئلے پر پہلی مرتبہ حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کیا ہے۔ بعد ازاں شہباز شریف کی گرفتاری انکی اہلیہ اور بیٹی کے وارنٹ گرفتاری کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کی واپسی کیلئے برطانیہ کو دوبارہ خط لکھنے کا فیصلہ بھی ہوا ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے 11 اکتوبر 2020ء کو کوئٹہ میں بڑا جلسہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اپوزیشن میں شامل جماعتوں کی اپنی اپنی ناراضگیاں ہیں، پشتون قوم پرستوں کو افغان اور پاکستان کی سرحد پر باڑ لگانے کے مسئلے پر تحفظات ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی باڑ لگانے کے مسئلے پر ناراضگی کے ساتھ ساتھ عمران خان سے ذاتی اعناد بھی اور رنجش کا معاملہ بھی شامل ہے لیکن وسیب کے لوگوں کو بلاول بھٹو سے شکایت اور ناراضگی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے مہاجر صوبے کے خوف سے سرائیکی صوبے کے مسئلے کو جان بوجھ کر پسِ پشت ڈال دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر کسی سرائیکی قوم پرست جماعت کو نہیں بلایا۔ جب پیپلز پارٹی کی اپنی ضرورت تھی تو صدر زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے عرصہ اقتدار کے دوران سرائیکی رہنما بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کو وزیراعظم ہاؤس میں مستقل ٹھکانہ دے دیا تھا۔

کراچی آیا ہوا ہوں کراچی میں سرائیکی رہنما نذیر لغاری، مشتاق فریدی، سعید خاور، قاسم خان لشاری، شاہد جتوئی، حاجی رب نواز ملک، کرنل عبدالجبار خان عباسی، کرنل اقبال ملک، مہر شکیل احمد شاکر سیال، محمد علی خان، راشد مصطفی خان، ظہور ملک، غفور ملک و دیگر سے ملاقاتیں ہوئی ہیں، اس موقع پر سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ جب تک اتحاد نہیں ہوگا، مسئلے حل نہیں ہونگے۔

میں نے مختلف اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان قوموں کا ملک ہے اور پاکستان میں بسنے والی قومیں ایک گلدستے کی مانند ہیں۔ آج کرسی، اقتدار کے لئے عمرانی معاہدے کی نہیں بلکہ قوموں کے درمیان عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔

آج ہمیں چینی، انگریزی یا ہندوستانی زبانیں سیکھنے کی بجائے سب سے پہلے پاکستان میں بولی جانیوالی سندھی، سرائیکی، پنجابی، بلوچی، پشتو، ہندکو، پوٹھوہاری، براہوی، کشمیری پنجابی و دیگر زبانوں کو بولنا اور سمجھنا چاہئے۔

میں بلاول بھٹو کو بتانا چاہتا ہوں کہ سرائیکی خطہ سندھ کی طرح دریاؤں کی سرزمین ہے اور صوفیاء کرام کا مسکن ہے۔ دونوں خطوں میں انسان دوستی اور محبت کا پیغام عام کرنے میں ہمارے صوفیاء کرام کا کردار بہت اہم ہے۔ جس طرح شاہ لطیف نے انسانوں سے محبت کا پیغام دیا، اسی طرح خواجہ فرید نے بھی محبت کا درس دیا ہے۔

سندھ اور سرائیکی کی تہذیب، ثقافت ایک ہے۔ جغرافیہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ معمولی فرق کے ساتھ زبان بھی ایک ہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جو قومیں سندھ میں آباد ہیں، وہی قومیں سرائیکی خطے میں بھی آباد ہیں، جیسا کہ سندھ میں بھٹو، جنوبی پنجاب میں بھٹہ، سندھ میں دھاریجو، ہمارے ہاں میں دھریجہ، سندھ میں چانڈیو اور پنجاب میں چانڈیہ۔ ایک ہی تہذیب و ثقافت ہونے کے ساتھ ساتھ سندھ سرائیکی کے لوگوں کی ایک دوسرے کے ساتھ رشتے داریاں بھی ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بر سر اقتدار آنے کے بعد سرائیکی زبان و ثقافت کی پروموشن کیلئے کام کیا اور اپنے دوست ریاض ہاشمی مرحوم کو مشورہ دیا کہ وہ تہذیبی و ثقافتی بنیادوں پر کام کریں، جس کی بناء پر بہاولپور صوبہ محاذ کے رہنما ریاض ہاشمی نے بہاولپور صوبہ محاذ کو سرائیکی صوبہ محاذ میں تبدیل کیا۔

اب بلاول کو اپنے نانا کی لاج رکھنی ہو گی۔ سب جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا، عدالت میں بھی ذوالفقار علی بھٹو نے سرائیکی زبان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی میٹھی زبان سرائیکی میں یہ کہوں گا کہ "درداں دی ماری دلڑی علیل اے "۔

مگر یہ یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کافی کا اگلا مصرعہ اس لئے نہیں پڑھا تھا کہ وہ ضیاء الحق کے حق میں جاتا تھا۔ مصرعہ یہ تھا کہ"سوہنڑاں نہ سنڑدا ڈٖکھاں دی اپیل اے"۔

اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے عدالت میں سرائیکی شاعر خواجہ فرید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ "کیا حال سنڑاواں دل دا، کوئی محرم راز نہ ملدا۔"

ذوالفقار علی بھٹو کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے پورے سرائیکی خطے میں ایک بھی یونیورسٹی نہ تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے سرائیکی وسیب کو 1975ء میں تین یونیورسٹیاں دیں۔

گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورکے قیائم کیں یہ بہت بڑا کارنامہ اور کریڈٹ ہے جس کو وسیب کے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔