پاکپتن شریف میں حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے عرس مبارک کی تقریبات کے موقع پر وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار پاکپتن شریف پہنچے، مزار پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھانے کے ساتھ ساتھ اعلان کیا کہ پاکپتن میں بابا فرید یونیورسٹی بنائی جائے گی۔ یونیورسٹی کے اعلان پر پورے وسیب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، چوہدری پرویز الٰہی اور بعد ازاں میاں شہباز شریف کے دور میں بابا گرو نانک یونیورسٹی اور لاہور امرتسر موٹر وے کا اعلان ہوا تو میں نے لکھا کہ بابا گرو نانک یونیورسٹی کے قیام پر اعتراض نہیں مگر اس سے پہلے بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے نام سے پاکپتن میں یونیورسٹی ہونی چاہئے، میں نے لکھا تھا کہ ہم پاکستانی مسلمانوں کیلئے اس سے بڑھ کر باعث افتخار کونسی بات ہو سکتی ہے کہ سکھوں کا پیغمبر ہمارے مرشد بابا فرید گنج شکر ؒ کا عقیدت مند ہے۔ نصیب کی بات ہے بابا فرید یونیورسٹی کے قیام کا کریڈٹ میاں شہباز شریف، چوہدری پرویز الٰہی نہ لے سکے، البتہ یہ کریڈٹ سردار عثمان کے حصے میں آیا ہے۔
حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا عرس مبارک 5 محرم سے شروع ہوتا ہے اور 9 محرم اختتام ہوتا ہے البتہ مجموعی طور پر عرس مبارک کی تقریبات 15 دنوں تک جاری رہتی ہیں۔ کورونا کے باوجود ایک اندازے کے مطابق 18 سے 20لاکھ افراد نے پاک پتن مین حاضری دی۔ یہ بھی دیکھئے کہ سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب میں بابا فرید کے اشلوک بھی شامل ہیں اور مشرقی پنجاب کے نصاب کا حصہ ہیں، بابا فرید کی تعلیمات کو پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ یہ بھی عرض کروں کہ پاکپتن کا قدیم نام اجودھن تھا جسے بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے پاکپتن بنا دیا۔ یہ پتن دریائے ستلج کے کنارے تھا اور حضرت بابا فریدؒ کے زمانے میں دریائے ستلج کی جوانی تھی۔ اس پتن کی اپنی شان اور اپنی آن تھی۔ پاک پتن کی اہمیت اس لحاظ سے بھی بہت زیادہ تھی کہ ملتان سے دہلی تک جانے والی عظیم شاہراہ پاکپتن سے گزر کر جاتی تھی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد نہ صرف یہ کہ یہ عظیم شاہراہ بند ہوئی بلکہ سندھ طاس معاہدے کے بعد دریائے ستلج بھارت کے پاس چلا گیا۔ جس سے پاک پتن اب صرف نام کا پاک پتن ہے اور ستلج کے ختم ہونے سے پوری تہذیب ہی ختم ہو گئی اور چولستان میں ایک اور چولستان وجود میں آ رہا ہے۔ جس پر عنان اقتدار کی فوری توجہ درکار ہے۔
پاکستان کی خاتون اول کا تعلق پاکپتن شریف سے ہے اور وزارت خارجہ کا قلمدان بھی حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ کے سجادہ نشین کے پاس ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے اتنی گزارش ہے کہ وہ دوسری راہداریوں کے بارے میں بھی اسی طرح کے جذبے کا مظاہرہ کریں۔ جیسا کہ ملتان دہلی قدیم راہداری ہے اور یہ راستہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ اور حضرت نظام الدین اولیاء کے زائرین کا راستہ ہے۔ اگر ملتان دہلی بس سروس شروع کر دی جائے تو اس کا فائدہ دونوں ملکوں کی مسلم آبادی کو ہوگا اور یہ پاکستان کے حق میں نہایت ہی بہتر ہے۔ امروکا بٹھنڈہ بارڈر بھی کھلنا چاہئے کہ یہ راستہ حضرت خواجہ نور محمد مہاروی ؒ اور حضرت معین الدین ؒچشتی اجمیری کا راستہ ہے، اس کا بھی مسلم آبادی کو فائدہ ہے۔ صوفیا کرام کے نام سے یونیورسٹیوں کا قیام مثبت عمل ہے مگر صرف نام ہی کافی نہیں بلکہ ان یونیورسٹیوں سے صوفیاء کرام کی انسان دوستی کی تعلیمات کو عام ہونا چاہئے۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ قیام پاکستان سے پہلے سمہ سٹہ تا دہلی براستہ امروکہ بٹھنڈہ بہت بڑا ریلوے روٹ تھا اور یہاں سے چلنے والی پسنجر و گڈز ٹرینوں کی تعداد دوسرے روٹوں سے کہیں زیادہ تھی اور بہاولنگر اس روٹ کا بہت بڑا اسٹیشن اور تجارت کا بہت بڑا مرکز تھا۔ بہاولنگر کا ریلوے اسٹیشن اتنا وسیع اور خوبصورت تھا کہ سیاح محض اسے دیکھنے کیلئے آتے تھے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد امروکہ بٹھنڈہ روٹ بند ہونے سے سب کچھ اجڑ گیا۔ آج اگر اس سٹیشن کی زبوں حالی اور بربادی کا نظارہ کیا جاتا ہے تو سنگدل سے سنگدل آدمی کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے ہیں۔ محرومی کے حوالے سے میں بات کرتا ہوں تو کچھ لوگوں کو اچھی نہیں لگتی اور کچھ تو ایسے ہیں کہ وہ اپنی عادت کے مطابق ہر بات کو ملک دشمنی سے تعبیر کر لیتے ہیں۔ یہ 21ویں صدی ہے، ڈیجیٹل دور ہے، نئے مکالمے اور نئے بیانیے کی ضرورت ہے اور حکمرانوں کو ان علاقوں کی طرف لازمی توجہ دینا ہوگی جو قیام پاکستان کے بعد ترقی معکوس کا شکار ہوئے۔
پاکپتن میں یونیورسٹی کے قیام کیلئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے، یونیورسٹی کا کام انہی خطوط پر ہونا چاہئے جس طرح کہ رحیم یارخان میں خواجہ فرید یونیورسٹی ہنگامی بنیادوں پر بنائی گئی۔ اس کے ساتھ پاکپتن کے دیگر مسائل کو بھی حل ہونا چاہئے کہ لاہور کراچی براستہ پاکپتن صرف ایک ٹرین فرید ایکسپریس چلتی ہے، ٹرینوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے اور سی پیک سے پاکپتن، بہاولنگر، وہاڑی اور بہاولپور کو محروم کیا گیا ہے، ضروری ہے کہ ان شہروں کو سی پیک سے لنک اپ کیا جائے، ان علاقوں میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون بنائے جائیں اور جس طرح یہ علاقے تہذیبی، ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے ہمیشہ وسیب کا حصہ رہے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ ان تمام علاقوں کو وسیب سے الگ نہ کیا جائے اور وسیب کے علاقوں پر مشتمل بننے والے صوبے کا ہی حصہ رہنے دیا جائے، اس سے جغرافیائی وحدت کے ساتھ ساتھ قدیم تہذیبی و ثقافتی یگانگت بھی برقرار رہے گی اور اس سے ملتان کے ساتھ کوٹھے والا میں پیدا ہونے والے حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کی روح بھی یقینا خوش ہوگی۔