سپریم کورٹ کی طرف سے پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال ہونے کے بعد جشن کا سماں ہے، بلدیاتی اداروں کے چیئرمین اور وائس چیئرمین تو کیا کونسلر بھی خوش اورنہال نظر آتے ہیں۔ اس خوشی کا یہ سماں شہروں کیساتھ ساتھ دور دراز دیہاتوں تک بھی پہنچا ہوا ہے کہ شاید ہی کوئی بڑا گائوں ایسا ہو جس کا نمائندہ یونین کونسل نہ پہنچا ہو۔ حقیقی بات یہ ہے کہ ہر طرف جشن کا سماں ہے۔ پھولوں کے ہار پہنائے جا رہے ہیں اور پتیاں نچھاور کی جا رہی ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے سربراہ ڈھول کی تھاپ پر اداروں کی سربراہی کا چارج لیتے نظر آتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی معطلی اور بلدیاتی الیکشن میں غیر ضروری تاخیر یہ بھی یہ ایک ایسی نا اہلی ہے جو موجودہ حکومت کے کھاتے میں لکھی جا چکی ہے۔ ادارے بحال ہوچکے، دیکھنا یہ ہے کہ یہ صورتحال کب تک برقرار رہتی ہے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ بلدیاتی اداروں کے پچھلے اڑھائی سال ضائع ہوئے اُس کا ازالہ کس طرح ممکن ہے؟ کیا عدالت اس بارے میں احکامات جاری کرے گی؟ خوشیاں اپنی جگہ مگر دیکھنا یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور فنڈز بھی ملتے ہیں یا نہیں؟
بلدیاتی اداروں کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چند دن پہلے پنجاب میں بلدیاتی الیکشن نہ کرانے کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پنجاب لوکل باڈیز آرڈیننس کے اجراء پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور اسے سپریم کورٹ پر حملہ قرار دیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ بھی کہاکہ پنجاب حکومت اقتدار کے نشے میں پنجاب کو ملک سے الگ کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا تھاکہ کیا پنجاب میں مشرقی پاکستان والا سانحہ دورانے کا منصوبہ بنایا جا رہاہے؟ سوالات درست تھے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر اعلانیہ طور پر واحدانی طرز حکومت قائم ہو چکا ہے، کم از کم مرکز پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں سب کچھ وزیر اعظم کی مرضی سے ہوتا ہے۔ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا الزام وزیر اعلیٰ سمیت جسے مرضی آئے دے دیا جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ مرکز کی طرف سے ہورہا ہے۔
اب صورتحال یہ پیدا ہو چکی ہے کہ بلدیاتی اداروں کے الیکشن میں جتنی تاخیر ہوگی اُتنا نقصان ہو گا، لہٰذا نہایت ضروری ہو چکا ہے کہ حکومت کو بلدیاتی الیکشن بلا تاخیر کرانا چاہیے کہ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسریاں تصور کی جاتی ہیں جہاں جمہوری نظام اور اقدار کی تربیت حاصل کر کے اسمبلیوں کی رکنیت اور وزارتوں کے مناصب پر فائز ہونے والے افراد جمہوری اقدار کی پاسداری اور فرائص منصبی کی ادائیگی کی ایک اچھی اور قابل تقلید مثال قائم کر سکتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات چاہے غیر جماعتی بنیادوں پر بھی ہوں ہر امیدوار اور ووٹر کوئی نہ کوئی سیاسی وابستگی رکھتا ہے اور اس وقت حکمران جماعت تحریک انصاف سمیت دوسری سیاسی جماعتیں بھی پوری طرح سرگرم عمل ہیں، بلدیاتی الیکشن ہر صورت ہونا چاہیے۔ حکومت نے بالآخر الیکشن تو کرانا ہے، دوسرا معاملہ یہ ہوا ہے کہ خود حکومت نے الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو مستعفی ہونے کا کہا ہے، اس مسئلے کو بھی حل ہونا چاہیے۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ہمارے یہاں آج تک انتخابی عمل کو مکمل طور پر آزادانہ نہیں بنایا جا سکا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف شکست خوردہ امیدوار اپنی شکست تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے بلکہ اسمبلیوں کے اندر بھی برسر اقتدار اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی کا عمل ایوان کے تقدس کو مجروح کرتا اور انہیں مچھلی بازار میں بدل دیتا ہے قانون سازی اور عوامی مسائل کا حل تاخیر و تعطل کا شکار ہو کر جہاں اسمبلیوں پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرتا ہے اس لئے وہاں بعض عناصر کو جمہوری سیاست کی بساط لپیٹنے کا بہانہ ہاتھ آ جاتا ہے۔ اسی صورتحال کا نتیجہ تھا کہ مغربی ذرائع ابلاغ پاکستان کے متعلق یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ پاکستانی قوم جمہوریت کی اہل ہی نہیں۔ سرائیکی وسیب میں صورت حال ازاں خراب ہے وجہ یہ ہے کہ یہاں جاگیردارانہ نظام قائم ہے، جہاں تک غیر جاگیردارانہ علاقوں مثلاً وسیب کے شہروں کا تعلق ہے تو وہاں برادری ازم کی وبا نظام کو ناکارہ اور کھوکھلا کرتی نظر آ رہی ہے۔
اس صورت میں حکومت اور انتخابی عمل کو صاف شفاف بنانے اور امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار اداروں کو اس امر کا نہایت سنجیدگی سے احساس کرنا ہوگا کہ بلدیاتی اداروں کے صاف ستھرے انتخابات کا اثر نہ صرف اس نظام اور ملک کے استحکام پر پڑے گا بلکہ 2021ء میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بھی حکومتی یقین دہانیوں اور اعلانات پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن اور حکومت مکمل غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابی ضابطوں کی خلاف ورزیکو روکنے اور اس کا مکمل تدارک کرنے کی ایک قابل تقلید مثال قائم کریں۔
اس سلسلے میں نہ صرف سرائیکی وسیب بلکہ پورے پاکستان کے ووٹروں کا حق ہے کہ وہ اپنے امیدواروں کی گذشتہ کارکردگی کو سامنے رکھیں اور آئندہ انتخاب کے وقت برادری ازم یا طبقے یا علاقے نوازی کو بالکل سامنے نہ رکھا جائے۔ بلدیاتی امیدواروں سے اپنے وسیب اور اپنے علاقے کے حقوق کی بات بھی کی جائے اور ان سے مطالبات منواتے وقت تعلیمی اداروں کے وجود کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ وسیب کے جاگیردار ضلع ناظمین اور تحصیل ناظمین نے تعلیمی اداروں اور علمی لائبریریوں کے قیام کیلئے کوئی کام نہیں کیا، ان سے اس مسئلے پر بھی باز پرس کی جائے۔ ووٹ بڑا ہتھیار ہے اس کی طاقت بم سے زیادہ ہے وسیب کے لوگ اس کی اہمیت کا ادراک ضرور کریں جب وسیب کے لوگ ووٹ کی اہمیت سے آگاہ ہوں گے، ان کا سیاسی شعور بیدار ہوگا تو پھر یہاں کوئی مائی کا لال ان کے حقوق غصب نہ کر سکے گا لہٰذا بلدیاتی الیکشن کے وقت ووٹ کے استعمال میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے۔