Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Cholistan Per Research Ki Zaroorat

Cholistan Per Research Ki Zaroorat

وفاقی وزیر ہائوسنگ اینڈ ورکس چودھری طارق بشیر چیمہ نے کمشنر آفس بہاولپور میں منعقدہ جائزہ اجلاس برائے اراضی الاٹمنٹ سکیم چولستان کی صدارت کی۔ اجلاس میں کمشنر بہاولپور ڈویژن کیپٹن (ر) محمد ظفر اقبال، ڈپٹی کمشنر بہاولپور مظفر خان سیال، اراکین صوبائی اسمبلی احسان الحق چودھری، ڈاکٹر محمد افضل، ایم ڈی چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی رانا سلیم احمد، چولستانی علاقوں کے نمبرداروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں وفاقی وزیر نے ہدایت کی کہ چولستان میں الاٹمنٹ سکیم کے عمل کو مکمل کیا جائے۔ چولستان حساس علاقہ اس لیے بھی ہے کہ بھارت کے ساتھ چولستان کی وسیع ترین سرحد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ چولستان میں الاٹمنٹوں کا مسئلہ ہمیشہ سے متنازعہ چلا آرہا ہے اور الاٹمنٹوں کا مسئلہ سوالیہ نشان کے ساتھ ساتھ بہت بڑا ایشو بھی بنتا جا رہا ہے۔ ایک مسئلہ شکار اور فارمنگ کے نام پر عرب شہزادوں کو چولستان کے رقبے کی لیز کا بھی ہے۔ اس بارے یہی گزارش ہے کہ جب تک صوبہ نہ بنے اور صوبے کا ریونیو بورڈ قائم نہ ہو اس وقت تک الاٹمنٹوں کی بجائے چولستانیوں کو سہولتیں مہیا کی جائیں۔ تعلیم، صحت اور روزگار کے ساتھ ساتھ چولستان پر مشتمل نئے ضلع اور نئی تحصیلوں کا قیام انتظامی سہولتوں کے حوالے سے بہتر ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کروں گا کہ چولستان پر تحقیق اور ریسرچ کے کام کو آگے بڑھایا جائے کہ چولستان محض بگڑے شہزادوں کی شکار گاہ نہیں بلکہ اس کا شمار دنیا کے خوبصورت اور بہترین صحرائوں میں ہوتا ہے۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ چولستان پاکستان کا وسیع اور خوبصورت صحرا ہے۔ اس کے بہت سے اضلاع آتے ہیں، لیکن صحرا کا سب سے بڑا حصہ سابق ریاست بہاولپور کے تین اضلاع بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یارخان پر مشتمل ہے۔ یہ صحرا قدیم وادی ہاکڑہ کا اہم حصہ ہے، جس پر مزید تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ صحرا کے آثار کو بچانے اور اس پر تحقیق اور ریسرچ کرنے کی بجائے شکاریوں نے اس کے حسن کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ پاکستانی شکاریوں کے علاوہ چولستان پر سب سے بڑا حملہ عرب شکاریوں نے کیا اور اس صحراء کے قیمتی جانوروں اور پرندوں کو ختم کر کے رکھ دیا۔ چولستان کی قدامت بارے ابن حنیف لکھتے ہیں کہ "قدیم تہذیبی و تمدنی اثار کے حوالے سے وسیب میں اس لحاظ سے خصوصی اہمیت بہاولپور کے علاقے چولستان کو حاصل ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کے مختلف ادوار ہاکڑہ عہد، ابتدائی ہڑپائی دور، عروج یافتہ ہڑپائی دور، متاخر ہڑپائی دور اور خاکستری سفالی عہد سے تعلق رکھنے والی آبادیوں کے مجموعی طور پر سب سے زیادہ آثار وہیں سے ملے ہیں جبکہ چولستان سے ہی ملنے والے بعد کے ابتدائی تاریخی، وسطی (مسلم) عہد اور بعد کے آثار ان کے علاوہ ہیں۔"

ماہرین آثاریات نے مختلف اوقات میں چولستان کے قدیم آثار تلاش کئے ہیں، ان میں یہ قابل ذکر ہیں، سر آرل سٹائن نے 1941ء میں چولستان میں آثار قدیمہ تلاش کئے، ان کے بعد ڈاکٹر ہنری فیلڈ نے 1955ء، ڈاکٹر رفیق مغل نے 1974ء سے 1977ء، محمد صدیق، محمد حسن نے 1992ء میں چولستان کا دورہ کیا۔ ان میں سب سے اہم انکشافات سے پُر اور تفصیلی کام ڈاکٹر رفیق مغل کا ہے۔ تحقیقات کے ذریعے جو آثار دریافت ہوئے ان کی تفصیل اس طرح ہے کہ ان میں ہاکڑہ عہد کے 24مقامات، ابتدائی ہڑپائی عہد کے 9 مقامات، عروج یافتہ ہڑپائی عہد کے 2 مقامات، خاکستری سفالی عہد کے 4 مقامات، وسطی (مسلم) عہد کے 6 مقامات شامل ہیں۔ ماہرین آثاریات کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے عمل کو سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے تو اس علاقے سے بہت سے آثار قدیمہ دریافت ہو سکتے ہیں کہ وادی ہاکڑہ کی تہذیب سے ہی ہڑپہ اور موہنجو دڑو جیسی بڑی تہذیبیں پیدا ہوئیں۔

جب ہم ڈاکٹر رفیق مغل کی تحقیق کو دیکھتے ہیں تو حیرانگی ہوتی ہے کہ انہوں نے اتنا بڑا کام کر دیا۔ وہ اس خطے کے نہ ہوتے ہوئے بھی اس خطے کے محسن ہیں۔ وسیب سے محبت کرنے والے لوگ اور طالب علم ان کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ محکمہ آثاریارت پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رفیق مغل نے چولستان میں دریائے ہاکڑہ کے ساتھ ساتھ چار سو اسی کلومیٹر تک قدیم مقامات کی تلاش کا کام سر انجام دیا۔ چولستان کا رقبہ پچیس ہزار چھ سو تیرا مربع کلومیٹر ہے۔ آج کل تویہ صحرائی علاقہ ہے جہاں سالانہ بارش کا اوسط پانچ انچ سے بھی کم ہے اور وہ بھی یقینی نہیں مگر ہزاروں برس قبل چولستان کی آب و ہوا اور طبعی ماحول کی صورتحال بالکل مختلف تھی۔ ڈاکٹر رفیق مغل نے چولستان میں چار مختلف مرحلوں میں کام کیا۔ پہلے مرحلے میں وہ نومبر، دسمبر 1974ء کو چولستان آئے اور 120 مقامات تلاش کئے۔ پھر 1975ء میں ایک ماہ چولستان میں رہے اور 80 مقامات تلاش کئے۔ 1976ء میں ڈیڑھ ماہ کے دوران انہوں نے 161 مقامات تلاش کئے اور پھر چوتھے اور آخری مرحلے کے دوران 1977ء میں 63 مقامات دریافت کئے۔ اس طرح انہوں نے چولستان میں ان چار مراحل کے دوران کل چار سو چوبیس پرانے مقامات دیکھے اور ریکارڈ کئے۔

چولستان کے مذکورہ بالا 424 آثار کا تعلق آج سے تقریباً ساڑھے پانچ یا چھ ہزار سال قبل سے لیکر ابتدائی، تاریخی، وسطی اور ما بعد عہد تک ہے۔ ان مقامات کے تمدنی و تہذیبی ادوار کے لحاظ سے تقسیم و تعداد اس طرح ہے۔ ہاکڑہ عہد (3800ق م تا 3200 سال ق م کے 99مقامات، ابتدائی ہڑپائی دور (3200ق م تا 2500 ق م) کے 40 مقامات، عروج یافتہ ہڑپائی دور (2500 ق م سے 1900ق م) کے 174 مقامات، متاخر ہڑپائی دور (1900 ق م سے 1400 ق م) کے 50مقامات، رنگین خاکستری سفالی عہد (1100 ق م تا 500 ق م) کے 14 مقامات، ابتدائی تاریخی، وسطی (مسلم) اور ما بعد عہد (500 ق م تا مسلم اور متاخر ادوار) کے 37 مقامات کے ساتھ ناقابل شناخت آثار کے 10 مقامات شامل ہیں۔ یہ سروے بہت اہم ہے کہ اس دوران چولستان میں وہ قدیم ترین ننانوے آثار بھی ملے جنہیں ڈاکٹر مغل نے " ہاکڑہ تمدن، کا نام دیا اور انہوں نے وادی سندھ کی تہذیب کو ایک اور نام " عظیم تر وادی سندھ کی تہذیب " بھی دیا۔ واضح ہو کہ یہاں وادی سندھ کی اصطلاح موجودہ صوبہ سندھ تک موجود نہیں۔