عید الفطر سے قبل وزیراعلیٰ عثمان خان بزدار نے وزارت اطلاعات و ثقافت پنجاب کو ہدایت کی تھی کہ صوبائی حکومت کی طرف سے ادبی و ثقافتی اداروں سے وابستہ افراد کی گرانٹ عید سے قبل مستحقین تک پہنچائی جائے۔ اس سے پہلے وزیراعلیٰ کہہ چکے تھے کہ کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب فنکاروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے، جس کی بناء پر حکومت پنجاب نے کروڑوں روپے کے فنڈز ریلیز کر دیئے ہیں جو کہ عید الفطر سے قبل فنکاروں تک پہنچائے جا رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ نہ صرف یہ کہ گزشتہ عید پر فنڈز جاری نہ ہو سکے بلکہ دوسری عید سر پر آ گئی ہے، ابھی تک بھی ان فنڈز کا کوئی نام ونشان نہیں۔ فن سے وابستہ بہت سے فنکار میرے آفس جھوک سرائیکی میں تشریف لاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کی طرف سے جاری ہونے والی گرانٹ کا کیا ہوا؟ ملتان، بہاولپور اور ڈی جی خان آرٹس کونسلوں کے ڈائریکٹر صاحبان میں سے کسی ایک کو فون کرتا ہوں، جہاں سے بتایا جاتا ہے کہ گرانٹ کا انتظار ہے، گزشتہ روز ایک غریب فنکار کو انتظار کے بارے میں بتایا تو اس نے لمبی سانس لی اور کہا کہ کیا یہ عید بھی ایسے گزرے گی؟
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں فنکار بیروزگار ہو چکے ہیں، ساؤنڈ ایکٹ کی وجہ سے پہلے ہی وہ بہت پریشان تھے، مگر کورونا لاک ڈاؤن نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ فنکار ایک طرح سے دیہاڑی دار ہوتے ہیں اور کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں۔ چار ماہ سے چولہے ٹھنڈے ہیں، نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے فن کے علاوہ ہم کوئی کام نہیں کر سکتے۔ مزدور یا ملازمت کرنے کو بھی تیار ہیں مگر کام بند ہونے کیوجہ سے مزدوری بھی نہیں مل رہی۔ ذاتی تعلق کی بنا پر صاحب ثروت افراد سے ادھار لیتے رہے، نوبت بھیک تک بھی آئی مگر کون کسی کو ہر آئے روز دیتا ہے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے بہت سے فنکاروں کو پرنم آنکھوں کے ساتھ ہاتھ جوڑتے میں نے دیکھا ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے تو اسے اپنے اعلان کا بھرم رکھنا چاہئے اور غریب فنکاروں کی مدد کیلئے لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہئے۔
فنکاروں نے یہ بھی کہا کہ دیگر کام کھل گئے مگر فنون لطیفہ، فلم، تھیٹر، موسیقی اور شادی بیاہ کے پروگراموں پر ابھی تک پابندی ہے۔ کورونا کی وجہ سے لوگ مایوسیوں کا شکار ہیں، ضرورت اس بات کی تھی کہ تفریح طبع کے بصری اور سماعتی ادارے کھلنے چاہئیں تھے تاکہ لوگ مایوسیوں سے نکل سکیں۔ گزشتہ روز مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور سپیکر صوبائی اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی سے فنکاروں کے ایک وفد نے ملاقات کی تو چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ حکومت فنکاروں سے فنکاری نہ کرے اور ان کو کام کی اجازت دے تاکہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ شوبز کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ایک فنکار نے کہا کہ شوبز پر عریانی اور فحاشی کا الزام پہلے سے ہی ہے، اب جس طرح حکومت نے سب کچھ بند کر دیا ہے تو کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ ہم عریانی اور فحاشی کے نام پر بچوں کا پیٹ پالیں۔ فنکاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دیگر ممالک میں فلم کو انڈسٹری کا درجہ حاصل ہے مگر پاکستان میں ابھی تک ثقافتی پالیسی بھی نہیں بن سکی۔
سونیا گاندھی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ہم نے ثقافتی میدان میں پاکستان سے فتح حاصل کر لی ہے کہ پورے پاکستان میں ہندی فلم اور ہندی ثقافت راج کر رہی ہے۔ سونیا گاندھی کا بیان معمولی نہیں، کیا ہمارے حکمرانوں نے کبھی اس پر غور کیا۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اب تک ثقافتی پالیسی کیوں نہیں بن سکی؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ حکمرانوں کو جب ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے فرصت نہیں تو وہ مستقل پالیسیاں کیسے بنائیں، ایک مسئلہ یہ بھی ہے برگر نسل کے سیاستدان کلچر سے آگاہ نہیں۔ کچھ لوگ صرف بھنگڑے اور ناچ گانے کو کلچر کا نام دیتے ہیں جبکہ کلچر کی وسعت اتنی زیادہ ہے کہ یہ ہر شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کرتا ہے، کلچر کل ہے، باقی سب اس کے اجزا ہیں۔ فنون لطیفہ، دستکاریاں، ڈرامہ فلمز، کہاوتیں، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی روایات، مذہبی، سماجی رسومات، لوک کہانیاں، لوک قصے، شعری و نثری و رومانوی قصے، بہادری کی داستانیں، موسموں کے گیت، فصلوں کے گیت، ثقافتی میلے، تہوار، بزرگوں کے عرس، بچوں کے گیت، کھیل، بچوں بچیوں کے کھیل، نوجوانوں بزرگوں کے مشاغل، پیدائش و موت کی رسمیں عقائد و عبادات لوک تماشے، لوک تھیٹر، زبان، بولیاں، کہاوتیں، ضرب الامثال، لباس، کھانے، عقائد، رہن سہن یہ سب کچھ ثقافت کا حصہ ہیں۔
بلاشبہ مسائل ٹھیکہ داری اور اجارہ داری سے جنم لیتے ہیں، جس طرح مذہبی ٹھیکیداری غلط ہے، اسی طرح ثقافتی اجارہ داری بھی درست نہیں، کلچر فطرت اور خوبصورتی کا نام ہے، کوئی بھی غلط عمل کلچر کی بدنامی کا باعث تو ہو سکتا ہے، اسے ثقافتی عمل قرار نہیں دیا جا سکتا، جسم فروشی اور انسانوں کی خرید و فروخت، ونی، وٹہ سٹہ، کالا کالی یا عرب روایات کے مطابق بچیوں کو زندہ درگوہ کرنا کے عمل کو کلچر کے فطری عمل کے خلاف بغاوت قرار دیا جا سکتا ہے، کلچر نہیں کہا جا سکتا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی مثبت عمل کی آڑ میں کوئی دھندہ کرتا ہے، اسے ہوس زر کیلئے استعمال کرتا ہے تو یہ اس کا ذاتی قصور ہے، مذہب یا ثقافت کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ زمینی سرحدیں اپنی جگہ لیکن ثقافت کی اپنی حدود ہوتی ہیں۔ ہر طرح کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ صرف ثقافت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے مگر وسیب سے فن اور فنکار ختم ہوتے جا رہے ہیں، کسی طرح کی کوئی سرپرستی نہیں ہے۔ البتہ وسیب کے فنکاروں اور گلوکاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت فن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ گوالیار خاندان حیدر آباد، استاد مبارک خاندان بہاولپور اور استاد بلے خان طلبہ نواز ملتان کا خاندان اب فن سے پیچھے ہٹ چکا ہے۔ اس کی واحد وجہ حکومت کی عدم توجہی اور سخت مالی مشکلات ہیں۔ حکومت کو بلا تاخیر ایسی ثقافتی پالیسی ترتیب دینا ہوگی جس سے فن اور فنکار مرنے سے بچ سکیں۔