Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Har Taraf Yaadon Ka December Bikhar Gaya

Har Taraf Yaadon Ka December Bikhar Gaya

دسمبر کے ختم ہونے میں ایک دن باقی ہے، دسمبر کی یادوں کے حوالے سے لکھنا چاہتا تھا مگر دو خبروں نے بہت ہی ملول کر دیا اور یہ صدمہ بھی دسمبر کے صدمات میں شامل ہوا، ایک خبر کے مطابق بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں ایف سی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا ہے، جس سے 7 ایف سی اہلکار شہید اور 6 زخمی ہو گئے۔ شہداء کا تعلق مختلف علاقوں سے ہے۔ ان میں کچھ وسیب سے تعلق رکھتے ہیں، بلوچستان میں جب بھی شہادتیں ہوتی ہیں تو پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں، بلوچستان میں سرائیکی مزدور بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے، گزشتہ برسوں میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات میں وسیب کے مزدور قتل بے دردی کے ساتھ قتل کئے گئے اور مسلسل میتیں آتی رہیں، غریبوں کے مارے جانے کا صدمہ اپنی جگہ، اس سے بڑھ کر صدمہ یہ ہے کہ وسیب کے مزدوروں کے قاتل آج تک نہیں پکڑے گئے۔ بلوچستان حکومت کی نے بھی پرواہ نہ کی اور نہ ہی وفاقی حکومت نے کوئی ایکشن لیا۔ ہرنائی میں موجودہ ایف سی چیک پوسٹ پر دہشت گردی کا واقعہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے، دہشت گردوں کی بلا تاخیر گرفتاری بہت ضروری ہے۔

ایک المناک حادثے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ فورٹ منرو سے ملحقہ علاقے رکنی میں ایک مسافر وین کھائی میں گرنے سے 7 مسافر جاں بحق اور بہت سے زخمی ہو گئے، ویگن رکنی سے ڈی جی خان آ رہی تھی، وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے واقعے پر دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ لواحقین کے ورثاء کی مالی مدد کی جائے۔ دسمبر کی ستم ظریفیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر پی ڈی ایم کے وہ رہنما بھی آئے ہوئے تھے، جنہوں نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا نظریہ " نظریہ ضرورت " بن چکا ہے۔

دسمبر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انگریزی کیلنڈر میں دسمبر اور دیسی کیلنڈر میں پوہ منگھر جسے ہم میں "پوہ مانگھ" کہتے ہیں، کو یادوں کو مہینے کہا جاتا ہے۔ جونہی یہ مہینے شروع ہوتے ہیں، سرد ہوائیں چلتی ہیں تو ہر انسان یادوں کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔

سرائیکی کے عظیم شاعر خواجہ فرید نے کہا"اج مانگھ مہینے دی یارہی وے، کیوں بیٹھیں یار وساری وے" اس کامفہوم یہ ہے کہ آج منگھر کی گیارہ تاریخ ہو گئی ہے تو نے اپنے محبوب کو کیوں بھلایا ہوا ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ 25 دسمبر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش بھی ہے اور کرسمس کا تہوار بھی، مگر دسمبر بہت ستم گر ہے، اس کی یادیں خوشگوار نہیں کہ اسی مہینے سقوط ڈھاکہ ہوا، لاکھوں لوگ مارئے گئے اور ہم اپنے لخت جگروں کے ساتھ آدھے ملک سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے، اسی مہینے سندھ ماں دھرتی کی عظیم بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت ہوئی۔

اسی مہینے سانحہ پشاور پیش آیا، جس کے نتیجے میں ہمارے سینکڑوں لخت جگر ہم سے جدا ہوئے، اسی موقع پر کہا گیا کہ " جنازوں پر پھول ہمیشہ دیکھے، مگر پھولوں کے جنازے پہلی مرتبہ دیکھے۔" صحافت کے طالب علم اور محرومی کا شکار" پس افتادہ" علاقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی کی حیثیت سے پاکستانی تاریخ پر غور کرتا ہوں تو کوئی لمحہ، کوئی دن اور مہینہ ایسا نہیں جو زخموں سے چور لہورنگ نہ ہو لیکن آج دسمبر ہے تو کیوں نہ اس کی یادیں تازہ کریں۔

دسمبر کی دوسری بے شمار ستمگریوں میں ایک19 دسمبر 1984؁ء کو کرایا جانیوالا ضیا الحق کا ریفرنڈم بھی تھا، اس فراڈ ریفرنڈم میں یہ نہ پوچھا گیا کہ صدر کون ہو؟ بلکہ ایک سوال نامہ جاری کیا گیا جس کا " ہاں " یا "ناں " میں جواب دیناتھا۔

ریفرنڈم میں واضح کیا گیا تھا کہ"ہاں " کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ آئندہ پانچ سال کیلئے ضیاء الحق آئینی طور پر ملک کے منتخب صدر ہوں گے۔ سوال یہ تھا کہ"کیا آپ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے اس عمل کی تائید کرتے ہیں جو انہوں نے پاکستان کے قوانین کو قرآن حکیم اور سنت رسول ﷺ کے مطابق اسلامی احکامات سے ہم آہنگ کرنے اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے شروع کیا ہے" پاکستانی عوام نے جنرل ضیاء الحق کے"فراڈ" کو مسترد کیا اور وہ پولنگ اسٹیشنوں پر ہی نہ گئے اور سرکاری اہلکاروں نے پرچیوں پر مہریں لگانے کا فریضہ سرانجام دیا۔

یہ اس جنرل ضیاء الحق کا ریفرنڈم تھا جس نے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 1977ء کے الیکشن میں "جھرلو" کے الزام میں برطرف کیا تھا۔ دسمبر کے ہزاروں دکھ ہیں، کس کس کا ذکر کریں، معروف شاعر عرش صدیقی کا بیٹا اسی مہینے جدا ہوا تو انہوں نے ایک خوبصورت نظم لکھی۔ نظم کا عنوان ہے " اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے "۔ آپ بھی ملاحظہ کریں۔

اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے

دسمبر کے گزرتے ہی

برس اک اور

ماضی کی گھپا میں ڈوب جائے گا

اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا

مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں

نہ جاگے گا

اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور

زندگی کہرے کی دیواروں میں لرزاں

شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں

اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے

اسے کہنا گر سورج نہ نکلے گا

تو کیسے برف پگھلے گی

اسے کہنا لوٹ آئے

دسمبر آ گیا ہے