آج ہم ایک ایسی شخصیت کا ذکر کر رہے ہیں جو کہ اپنے وسیب کے ساتھ ساتھ اپنے پاکستان ملک سے بہت محبت کرتے تھے اور پورے ملک میں سماجی تقریبات منعقد کراتے تھے۔ ان کا نام عمر علی خان بلوچ تھا۔ گزشتہ روز مرحوم کی پانچویں برسی 25 فروری کو منائی گئی۔ صدارت پروفیسر حنیف چودھری نے کی۔ مقررین نے پروفیسر ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی، حیدر جاوید سید، یاسمین خاکوانی، رانا محمد اسلم، حکیم اقبال خان بلوچ، اسحاق خان بلوچ و دیگر موجود تھے۔ میزبانی کے فرائض مرحوم کی بیٹی امبرین خان بلوچ نے سر انجام دیئے۔ مقررین نے مرحوم کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمر علی خان بلوچ 13 مئی 1955ء کو نور محل جلال پور پیر والا میں پید اہوئے۔ انہوں نے علمی گھرانے میں آنکھ کھولی ان کے والد مولانا نور احمد خان فریدی نے شرح دیوان فرید، تاریخ ملتان، بلوچ قوم اور اس کی تاریخ جیسی درجنوں شاہکار کتابیں تصنیف کیں۔ 1970ء کے عشرے میں مولانا نے سرائیکی ادبی رسالے سرائیکی ادب کا اجرا کیا۔ اس سے پہلے عمر علی خان کے بڑے بھائی اختر علی خان بلوچ جو بلوچستان میں ڈپٹی کمشنر بھی رہے، نے 1960ء کے عشرے میں ہفت روزہ اختر سرائیکی کا ملتان سے اجرا کیا۔ عمر علی خان کے تیسرے بھائی چاکر خان بلوچ کی صحافت میں بے شمار خدمات ہیں۔
عمر علی خان بلوچ نے پہلی مرتبہ تعلیمی اداروں میں سرائیکی سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور وسیب کے تعلیمی اداروں کیساتھ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور، زرعی یونیورسٹی لائل پور اور کراچی یونیورسٹی میں بھی اس کے یونٹ قائم کئے۔ وہ خود بتاتے تھے کہ ولایت حسین ڈگری کالج میں اسلامی جمعیت کے طلبہ نے سرائیکی سٹوڈنٹس بنانے پر اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا لیکن عمر علی خان نے اپنا مشن جاری رکھا، گریجوایشن کے بعد ملازمت نہ ملی تو والد نے سرائیکی ادب کا کام ان کے حوالے کر دیا اور وہ آخر دم تک سرائیکی ادب شائع کرتے رہے۔ اس کے ساتھ وہ این جی او سے وابستہ ہوئے اور پاکستان یوتھ لیگ کے مرکزی صدر ٹھہرے وہ ایک ہی وقت میں کئی تنظیموں کے صدر اور سربراہ رہے۔ عمر علی خان بلوچ کی قومی سطح پر بہت خدمات تھیں مگر ان کا سرکاری خرچ پر علاج نہ ہو سکا۔ یہ صرف عمر علی خان کا مسئلہ نہیں سرائیکی وسیب کا ہر انسان انہی مصائب کا شکار ہے۔ عمر علی خان کی وفات سے چند دن پیشتر مظفر گڑھ کے قصبہ بصیرہ میں مشاعرہ تھا، شعرا کرام ماں بولی کے عالمی دن کے حوالے سے کلام پڑھ رہے تھے ایک دبلا پتلا شاعر، جس کے چہرے اور لباس سے غربت عیاں تھی، سرائیکی ماں بولی کی محبت اور وسیب کے حقوق کے حوالے سے جذباتی انداز میں کلام پڑھا اور مائیک سے آ کر اپنی نشست پر بیٹھتے ہی نیچے لیٹ گیا اور دوبارہ نہ اٹھ سکا، قریبی ہیلتھ سنٹر لے جایا گیا مگر وہ فوت ہو چکا تھا۔ اس شاعر کا نام الٰہی بخش فخر، ذات قندرانی، استاد شاعری مظہر قلندرانی، سکنہ بستی بیریں والا قصبہ بصیرہ ضلع مظفر گڑھ ہے۔ مرحوم نہایت غریب شاعر تھا۔
اوائل 1994ء کی بات ہے، میں نے عمر علی خان سے کہا ہم جھوک کو ملتان سے شائع کرنا چاہتے ہیں، عمر علی خان نے مجھے روکا اور کہا کہ رحیم یار خان میں حالات پھر بھی بہتر ہیں ملتان میں بہت بے حسی ہے، میں ایک ماہنامہ مشکل سے شائع کر رہا ہوں، آپ روزنامہ کیسے شائع کریں گے؟ میں نے کہا جو بھی حالات ہیں مقابلہ کریں گے، خان صاحب نے جب دیکھا کہ یہ بے سمجھ کوئی بات نہیں سمجھ رہے تو وہ ہمارے ساتھ ہو لئے، ہم نے ملتان میں ڈیکلریشن حاصل کیا۔ اخبار کی منظوری ہو گئی، خان صاحب نے روزنامہ امروز کے سینئر ایڈیٹر مسیح اللہ خان جام پوری سے ملوایا، ہم تینوں نے ملکر کام شروع کر دیا، صادق آباد دے ڈی آئی خان تک تعلق قائم ہو گیا اور اخبار کی سرکولیشن کا دائرہ خان پور کی نسبت زیادہ وسیع ہو گیا۔ اس پر حکومت انتقامی کارروائی پر اُتر آئی۔ پنجاب حکومت نے میرے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرا دیا، کچھ عرصہ بعد اخبار کا ڈیکلریشن بھی کینسل کر دیا، ہم ہائیکورٹ گئے اور لمبی عدالتی جنگ لڑی اس پُر اَشوب دو رمیں وکلاء برادری میں سے ملک قادر بخش تھہیم ایڈووکیٹ کے علاوہ کسی نے میرا ساتھ نہ دیا اور اس دوران پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہزاروں چاہنے والوں میں سے ماسوا عمر علی خان بلوچ، مسیح اللہ خان جام پوری اور دلنور نور پوری کوئی نظر نہ آیا۔ عمر علی خان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا، وسیب کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں میں سرائیکی کے ادبی اور این جی او کے فنگشن کیے۔ ملتان میں سالانہ دو تقریبات منعقد کراتے تھے۔
عمر علی خان کی مجھ سے زیادہ میرے بھائی منیر دھریجہ مرحوم سے دوستی تھی، بعد میں سرائیکی کے ادبی سفر کیلئے میں اور عمر علی خان ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب ہو گئے، اور ہم نے اکٹھے طویل مسافت طے کی۔ خان پور میں بھائی منیر کے ہاں ان کی لمبی نشستیں ہوتیں۔ مزید یہ کہ خان پور میں ان کے حلقہ احباب میں ریاض خان کورائی، ظفر جتوئی، عبداللہ خان بلوچ، رفیق انصاری، ڈاکٹر محمود قریشی، جام منیر اختر، غلام یٰسین فخری، قیس فریدی، میاں انیس دین پوری، ا رشاد امین اور بہت سے دوسرے احباب تھے، حبیب اللہ خیال سے اس لئے محبت کرتے تھے کہ اس نے غریبی میں نام پیدا کیا۔ عمر علی خان کا ایک گھر ملتان اور دوسرا خان پور میں تھا۔ ان کی دوسری زوجہ محترمہ شیما سیال جو سرائیکی افسانے کی نامور لکھاری ہیں اور سرائیکی ادب کی دنیا میں انکا بہت بڑا نام ہے، عمر علی خان نے سرائیکی کیلئے بہت کام کیا۔ سرائیکی سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ساتھ سرائیکی ادبی تحریک، سرائیکی نیشنل پارٹی کی انہوں نے بنیاد رکھی مگر تلاش معاش کے سلسلے میں این جی او سیکٹر میں ایسے پھنسے کہ وہاں سے نکل نہ سکے۔ رحیم یار خان کی سکونت بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی، آخری ملاقات پر خان صاحب نے مجھے بتایا کہ میں بہت تھک چکا ہوں، صحت زیادہ خراب رہنے لگی ہے، رحیم یار خان چھوڑ رہا ہوں، علی مراد کو کہہ دیا ہے کہ رحیم یار خان آفس کا فرنیچر یہاں کسی دوست کے حوالے کرتے ہیں اور میں مستقل ملتان آ رہا ہوں، افسوس انہوں نے آنا تھا وہ نہ آئے انکی میت مورخہ 25فروری 2016ء آئی اور وہ اپنے و الد اور والدہ کے پہلو میں سبز گنبد کے مزار میں "مستقل" سکونت پذیر ہو گئے۔