جشن عید میلاد النبیؐ کی تقریبات پورے عالم اسلام میں نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئیں۔ پاکستان کے چھوٹے بڑے تمام شہروں اور قصبات میں عید میلاد النبی ؐکے جلوس برآمد ہوئے اور جگہ جگہ محافل میلاد کا انعقاد ہوا۔ ہمارے گاؤں میں بھی بہت سے گھروں میں محافل میلاد کی تقریبات کا انعقاد ہوا اور خانپور میں میلاد النبیؐ کا سالانہ جلسہ مدرسہ سراج العلوم خانپور میں شروع ہو چکا ہے۔ یہ جلسہ ملک بھر میں اس بناء پر اہمیت کا حامل ہے کہ جلسے کی تقریبات پورا ایک ہفتہ جاری رہتی ہیں اور شب و روز علماء کرام، نعت خواں حضرات نذرانہ عقیدت پیش کرتے رہتے ہیں، جلسے کا کریڈٹ حضرت مولانا حافظ سراج احمد درانی المعروف سراج اہل سنت کو جاتا ہے، جنہوں نے آج سے قریباً ستر برس قبل جلسے کا آغاز کیا۔ اور اب تک یہ جلسہ باقاعدگی کے ساتھ ہوتا آ رہا ہے۔
خانپور کی سرزمین زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ مردم خیز بھی ہے۔ یہ سرزمین خواجہ فرید ؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا سراج احمد مکھن بیلوی ؒ، حضرت جیٹھہ بھٹہ ؒ، مولانا محمد عبداللہ درخواستی ؒ، خواجہ محمد یار فریدی ؒ، خلیفہ غلام محمد دین پوری ؒ، خواجہ دُر محمد کوریجہ ایسی بہت سی ہستیوں کا مولد و مسکن ہے۔ ان میں ایک نہایت ہی برگزیدہ ہستی کا نام قبلہ حافظ سراج احمد درانی المعروف سراج اہلنستؒ ہے۔ آپ بہت بڑے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ عاشق رسولؐ بھی تھے۔ دیدہ ور صحافی سید ارشاد احمد عارف اور صاحبزادہ خورشید گیلانی سمیت آپ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ خوبصورت شخصیت کے مالک، دراز قد، سفید کرتہ، سفید تہبند، گلے میں فریدی رومال اور پاؤں میں طلے والا کھسہ پہنتے تو بادشاہ لگتے۔ شخصیت باوقار اور با رعب مگر مزاج نہایت سادہ، نرم دل، ہمدرد و غمگسار اور طبیعت میں عاجزی و انکساری، ان سے ایک بار ملیں تو باربار ملنے کو جی چاہے۔ یقیناً ایسے ہی خدا کے برگزیدہ بندے ہوتے ہیں اور ایسی شخصیات کے دم سے ہی نظام قدرت میں رعنائی و دلکشی ہے، ایسے لوگ روز روز نہیں صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ قبلہ حافظ سراج احمد ؒ کی پیدائش 1331ھ بمطابق 1911ء خانپور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم قبلہ حافظ نظام دین سے حاصل کی، اسلامی کتابیں معروف عالم دین مولانا محمد موسیٰ سے پڑھیں۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم سراج الفقہ حضرت مولانا سراج احمد مکھن بیلوی سے مکھن بیلا میں جا کر حاصل کی۔ ازاں بعد بھرچونڈی شریف میں مولانا عبدالکریم ہزاروی سے کچھ کتابیں پڑھیں، اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ تعلیم کے سلسلے میں قبلہ حافظ صاحب ہندوستان بھی گئے اور دارالعلوم سہارن پور میں بھی پڑھتے رہے۔ دارالعلوم دیو بند میں صحاح ستہ اور حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ 1929ء میں جلسہ دستار فضلیت منعقد ہوا اور آپ کو بہترین طالب علم کی پگ باندھی گئی۔ دربار جیٹھہ بھٹہ کے سجادہ نشین میاں امام بخش سئیں کی درخواست پر جیٹھہ بھٹہ کے مدرسے میں پڑھاتے رہ گئے۔ 1957ء میں انہوں نے خانپور میں مدرسہ سراج العلوم کی بنیاد رکھی۔ جشن عید میلاد النبیؐ کا جلسہ پہلے سے کر رہے تھے اور خانپور میں مدرسہ قائم کرنے کے بعد بھی اس روایت کو مزید آگے بڑھایا۔ آپ کی بیعت سئیں خواجہ دُر محمد کوریجہ سے تھی، اس نسبت سے آپ درانی کہلواتے۔ کجھ لوگ سمجھتے کہ درانی آپ کی ذات ہے، در اصل درانی آپ کی ذات یا قومیت نہیں نسبت ہے۔
سئیں حافظ سراج احمد در اصل شارح دیوان فرید تھے، آپ قرآن مجید کے حافظ تو تھے پر سارا دیوان بھی ان کو یاد تھا۔ جب تقریر کرتے تو قرآن مجید کی آیت کا حوالہ، حدیث شریف اور خواجہ فریدؒ کے اشعار آپ کی تقریر کا خاصہ تھے۔ وہ ہمیشہ سرائیکی میں تقریر کرتے، البتہ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کے اردو شعر ضرور شامل کرتے، یہ شعر میں نے اکثر ان سے سنا " آنکھ والا جو بن کا تماشہ دیکھے، دیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے "۔ اسی طرح خواجہ فرید سئیں کے شعروں کے ساتھ ساتھ مولانا محمد یار فریدی سئیں ؒ کے اشعار بھی بڑی محبت کے ساتھ اپنی تقریر میں شامل کرتے تھے حافظ صاحب کی آخری تقریر کی بات کروں گا، نہ مجھے ان کی شکل بھولتی ہے اور نہ ان کی آخری تقریر۔ آخری تقریر میں انہوں نے خود بتایا تھا کہ " اب ہمارے آخری دن ہیں "۔ قبلہ حافظ صاحب کی ہر تقریر میں سوز و گداز بہت ہوتا۔ جس وقت تقریر شروع کرتے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات شروع ہو جاتی۔ سرور کائنات ؐ کی ذات سے بہت محبت کرتے تھے۔ سچے عاشق رسول تھے۔ گلے میں ہمیشہ فریدی رومال پہنتے، جو بات میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آخری تقریر کے وقت آپ بھی بہت روئے، جماعت کو بھی رُلایا۔ ان کی تقریر موت کے بارے میں تھی۔ واقعہ اس طرح ہے کہ حافظ صاحب کے مدرسہ سراج العلوم میں ایک پرانا ویران کنواں تھا۔ ایک طالب علم کی ٹوپی اس میں گر گئی، وہ بچہ ٹوپی لینے گیا تو نہ آیا۔ کنویں میں گیس بھری تھی، دوسرا بچہ بشیرا حمد اس کو نکالنے گیا تو وہ بھی نہ آیا، تیسرے بچے حافظ خورشید احمد سے نہ رہا گیا۔ وہ بھی ان کے پیچھے گیا تو وہ بھی موت کے اندھے کنویں کی نذر ہوگیا۔ دوسرے دن جمعہ تھا۔ قبلہ حافظ صاحب کے دل پر اس صدمے کا گہرا اثر تھا۔ پہلے قبلہ حافظ صاحب تقریر شروع کرتے تو وہ گریہ کرتے، اس بار تقریر سے پہلے ہی آنسوؤں کی برسات جاری تھی۔
قبلہ حافظ سراج احمدؒ، ایسے مشاہیر کی خدمات اور شخصیت پر تحقیق ہونی چاہئے اور دینی مدارس کو تاریخ کے موضوع پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہماری آنیوالی نسلوں کو ہمارے مشاہیر کی خدمات اور کارناموں کا علم ہو سکے۔ مجھے خوشی ہے کہ مدرسہ سراج العلوم خانپور اس طرف متوجہ ہوا ہے۔ آخر میں عرض کروں گا کہ حضرت سراج اہلسنت کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جنہوں نے علم کی شمع کو ہر طرف روشن کیا اور ہر طرف علم کی سخاوت عام کی۔ حضرت مولانا مفتی محمد مختار احمد درانی مہتمم مدرسہ سراج العلوم آپ کے بڑے فرزند ہیں، چھوٹے صاحبزادے حافظ خورشید احمد درانی بانی جامعہ سراج الاسلام خانپور اللہ کو پیارے ہو گئے، قبلہ مفتی مختار احمد صاحب کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا احسن مختار درانی وفات پا گئے۔ جبکہ ان کے دوسرے صاحبزادگان میں صاحبزادہ مفتی مظہر مختار درانی، صاحبزادہ اجمل مختار درانی، صاحبزادہ اظہر مختار درانی، صاحبزادہ اشرف مختار درانی، صاحبزادہ ارشد مختار درانی اور صاحبزادہ راشد مختار درانی مدرسہ سراج العلوم کی چھاؤں میں دین اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔