ہم پاکستانیوں کو امریکی الیکشن سے گہری دلچسپی ہے۔ ہم جھوک کے دفتر میں موجود ہیں۔ ہمارے سرائیکی شاعر عاشق صدقانی بلند آواز سے اخبار کی شہ سرخیاں پڑھ رہے ہیں۔" امریکی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کے بعد حالات کشیدہ، ٹرمپ کے کارندوں کا احتجاج، مشی گن میں پولنگ اسٹیشن پر دھاوا، پولیس پر پتھراؤ، ٹرمپ جوبائیڈن کے حمایتی لڑ پڑے، مظاہرے، جھڑپیں، 50 گرفتار، وائٹ ہاؤس خالی، گنتی بند کرو کے نعرے "۔ شہ سرخیاں پڑھنے کے بعد عاشق صدقانی نے کہا کہ ٹرمپ کو ہر صورت شکست ہونی چاہئے۔ میری خاموشی پر عاشق صدقانی نے کہا کہ امریکی الیکشن پر آپ کا کیا تبصرہ ہے۔ میں نے کہا کہ ہمارا امریکی الیکشن سے کیا لینا دینا۔ البتہ میں اس موقع پر عظیم سرائیکی شاعر مرحوم سرور کربلائی کی بات کو دوہراؤں گا کہ جب وہ زندہ تھے تو ان کا ایک پرستار ان کے پاس دوڑتا ہوا آیا اور کہا کہ الیکشن ہو رہے ہیں، دعا کریں میرا سردار ڈی جی خان سے جیت جائے، سرور کربلائی ہاتھ اٹھا کر خدا وند کریم سے دست بہ دعا ہوئے کہ " اللہ سئیں آں ڈٖوہیں مر ونجٖن"۔ یعنی دونوں مر جائیں، ایک سردار جیت کی خوشی سے، دوسرا سردار شکست کے غم سے۔
میں نے عاشق صدقانی سے کہا کہ بلند آواز سے خبر پڑھنی ہے تو یہ پڑھیں کہ ملتان میں پیپلز پارٹی کا اجلاس ہوا ہے، اجلاس میں سید یوسف رضا گیلانی، مخدوم احمد محمود اور نتاشہ دولتانہ میں سے کسی نے وسیب کے حقوق اور صوبے کی بات نہیں کی، ان کا فوکس 30 نومبر کو ملتان میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے کی تیاریوں پر رہا، البتہ انہوں نے یہ کہا کہ تحریک انصاف نے دھوکہ دیا ہے، حالانکہ یہ وہ بات ہے جو وہ خود کر چکے ہیں۔ اسی طرح مظفر گڑھ میں مسلم لیگ ن کا ورکرز کنونشن تھا، مرکزی رہنما احسن اقبال، رانا ثناء اللہ، سعد رفیق اور اویس لغاری نے کہا کہ عمران خان نے جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر وسیب کو دھوکہ دیا، مگر سوال یہ ہے کہ ن لیگ نے کونسی وفا کی تھی؟ باوجود اس کے کہ ن لیگ کے پاس قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی اور انہوں نے صوبے کے نام پر ہی ووٹ لیے تھے، منشور میں بھی لکھا تھا مگر بر سر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے وسیب کو اس طرح نظر انداز کیا جیسے جانتے ہی نہیں۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف نے سو دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کر کے سول سیکرٹریٹ کا ڈھونگ رچا دیا مگر ظلم یہ ہے کہ افسران کی تعیناتی تو کر دی گئی ہے مگر سول سیکرٹریٹ بھی فنکشنل نہیں ہو سکا۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ حال ہی میں ترقیاتی سکیموں کے فنڈز بند کر دیئے گئے ہیں۔ وسیب کے تین درجن کے لگ بھگ جاری منصوبوں پر کام روک دیا گیا ہے۔ منصوبوں کے التوا سے نہ صرف عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے بلکہ منصوبوں کے اخراجات بھی خوفناک حد تک بڑھ جائیں گے، کہنے کو عمران خان اور عثمان خان بزدار کا تعلق وسیب سے ہے مگر توقعات کے بر عکس وسیب کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ تونسہ اور ڈی جی خان کو عثمان خان بزدار نے چھوٹے موٹے ترقیاتی منصوبے دے دیئے ہیں جبکہ عمران خان نے تو میانوالی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ پچھلے دنوں معروف سنگر شفا اللہ روکھڑی کی تعزیت اور عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی سے ملاقات کے لئے میانوالی گیا تو مجھے قدم قدم پر محرومی نظر آئی اور افسوس ہوا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے مقابلے میں عمران خان نے اپنے حلقہ انتخاب کو اس طرح نظر انداز کیا ہوا ہے جیسے یہ ان کے مخالفوں کا ڈسٹرکٹ ہو۔
نواز شریف کی حکومت کو صنعت کاروں کی حکومت سمجھا جاتا تھا، جبکہ عمران خان نے کاشتکاروں کو ریلیف دینے کے نام پر ووٹ لیے اور ان کو مینڈیٹ بھی دیہاتوں سے ملا۔ مگر افسوس کہ عمران خان کی حکومت کسانوں پر ڈنڈے برسا رہی ہے۔ گزشتہ روز بورے والا کے نواحی گاؤں چک 150 کا اشفاق لنگڑیال لاہور پولیس تشدد سے دم توڑ گیا۔ ان کی میت بورے والا پہنچی تو پورے وسیب میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ پولیس نے اپنے حقوق کیلئے مظاہرہ کرنے والوں پر صرف ڈنڈے ہی نہیں برسائے، گرفتاریاں بھی کی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ شہباز شریف کے دور میں بھی وسیب کے کاشتکاروں پر تشدد ہوتا رہا، مگر موجودہ دور میں لاہور میں تشد کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، حکومت کو اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ کاشتکار سڑکوں پر احتجاج کرنے پر کیوں مجبور ہوئے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کپاس کے کاشتکاروں کا بہت نقصان ہوا ہے اور یہ سب کچھ محکمہ زراعت کی ملی بھگت سے نقلی اور جعلی ادویات فروخت کرنے والوں کے باعث ہوا۔ وسیب کے کاشتکار ذہنی اذیت کا شکار ہیں، حکومت نے زرعی ٹیکس، کھاد، بیج، زرعی ادویات، بجلی، ڈیزل اتنا مہنگا کر دیا ہے کہ کاشتکاروں کو اپنی پیداوار کی لاگت تک ہی نہیں مل رہی۔ حکومت کو کسان دوست پالیسیاں بنانا ہونگی، حکومت کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ سرکاری تخمینہ سے بھی گندم کی پیداوار بہت زیادہ ہوئی، اس کے باوجود آج کسان کے گھروں میں آٹا نہیں اور وہ سخت مشکلات کا شکار ہے۔ ایک ظلم یہ بھی ہے کہ سود خوروں نے وسیب کے غریب کاشتکاروں کا جینا محال کر دیا ہے۔ وسیب کا کاشتکار کھاد، بیج اور زرعی ادویات سود پر حاصل کرتا ہے اور پھر سود کے جکڑ میں وہ اس طرح جکڑا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر پر اپنے کھانے کیلئے گندم بھی نہیں رکھ سکتا۔ اسی صورتحال کو دیکھ کر سرائیکی شاعر قیس فریدی نے ایک نظم لکھی تھی، جس کا مفہوم یہ تھا جو " کاشتکار دنیا کے لئے اناج پیدا کرتا ہے مگر اس کے اپنے گھر کا اناج کہاں گیا؟ اور یہ کہ میں تو اصل کو رو رہا ہوں، سود خور کہتا ہے میرا " وہاج " یعنی سود کہاں گیا؟ "۔ دو شعر دیکھیں:
ساری دھرتی دے کھیت جیں رادھن
اوندے گھر دا اناج کیڈے گیا
میں مُڑی کوں بیٹھا رونداں
توں آہدیں وہاج کیڈے گیا