بھارتی پنجاب میں خالصتان کی تحریک ایک عرصے سے چل رہی ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں بھارتی حکومت سکھوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتی آ رہی ہے اور انتقام کے طور پر سکھوں نے وزیراعظم اندرا گاندھی کو بھی قتل کر دیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارتی حکومت کی انتقامی کاروائیوں کے نتیجے میں بھارتی پنجاب میں مختلف تحریکیں سر اٹھاتی رہتی ہیں جن کے تانے بانے در اصل خالصہ تحریک سے جا ملتے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں آج کل کسانوں کی تحریک چل رہی ہے اور پولیس سے مڈ بھیڑ کے نتیجے میں سکھ نوجوان پولیس کو گریبان کھول کر کہتے ہیں کہ ہاں ہم خالصتانی ہیں، ہمیں مارو۔ بھارتی پنجاب کے کسانوں نے 8 دسمبر کو پورا بھارت بند کرنے کی دھمکی دی ہے اور مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔ مودی سرکار کو کشمیری مسلمانوں اور بھارت کے سکھوں کا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔
سکھوں کا ذکر آیا ہے تو بتاتا چلوں کہ پچھلے دنوں بابا گرونانک کا یوم ولادت منایا گیا اور بہت سے سکھ پاکستان آئے۔ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سکھ مذہب کے بانی گرونانک 1469ء میں موضع رائے تلونڈی موجودہ ننکانہ کے ایک کھتری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام کلیان چند عرف کالوجی تھا، انہیں دنیاوی کاروبار سے کوئی دلچسپی نہ تھی، گیان دھیان میں مصروف رہتے تھے، ہندی سنسکرت اور فارسی کی تعلیم مختلف اساتذہ سے حاصل کی۔ زندگی کا ابتدائی دور سلطان پور کے رئیس دولت خان لودھی کے پاس گزارا، گورداسپور کے ایک کھتری سری مول چند کی بیٹی سے شادی کی۔ دو بیٹے بھی ہوئے۔ سری چند ولات 1494اور مکھی چند ولادت 1496 لیکن پھر بھی دنیا میں دل نہ لگا۔ 1497ء میں ترک دنیا کر کے تین رفیقیوں کے ساتھ سیر و سیاحت شروع کر دی۔ مختلف علاقوں اور ملکوں میں پھرے، جن کے متعلق معتبر اور صحیح تفصیلات نہیں ملتیں۔ 1504ء میں دریائے راوی کے کنارے ایک آبادی کی بنیاد رکھی جو کرتارپور کے نام سے مشہور ہوئی جو اب ضلع ناروال میں ہے۔ زندگی کے آخری دور میں اسی جگہ مقیم ہو گئے اور یہیں وفات پائی۔ اس مقام کو دربار صاحب کرتار پور یا ڈیرہ بابا نانک کہتے ہیں، اس نام کا ایک قصبہ جو گوروار جن سے منسوب ہے، ضلع جالندھر میں ہے۔ گرونانک نے 1539ء میں بادشاہ ہمایوں کے عہد میں وفات پائی۔
سکھوں کا مشہور گوردوارہ جو حسن ابدال کے مقام پر ہے، میں ایک پتھر پر گرو نانک کے دائیں ہاتھ کا پنجہ لگا ہوا ہے۔ یہ پتھر ایک گوردوارے میں محفوظ ہے جو رنجیت سنگھ کے جرنیل سرداری ہری سنگھ نے 1823ء میں تعمیر کرایا۔ 1920تک گوردوارہ ہندو م کے قبضے میں تھا۔ سکھوں کی احتجاجی تحریک کے بعد سکھ پنتھ کے زیر انتظام آ گیا۔ 26 نومبر 1920ء کو سرومنی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی امرتسر نے گوردوارہ پنجہ صاحب کمیٹی قائم کر دی، اس کمیٹی کے تحت گوردوارہ کی تعمیر نو کی گئی۔ اس عمارت میں کوئی اینٹ بھی 1921ء سے پہلے کی نہیں۔ ہر سال یہاں بیساکھی کا میلہ ہوتا ہے جس کا آغار رنجیت سنگھ کے زمانے میں ہوا تھا، آزادی کے بعد یہ گوردوارہ محکمہ متروکہ وقف املاک کی حفاظت میں آ گیا۔ یہاں ہر سال 11 تا 13 اپریل بیساکھی کا میلہ اب بھی لگتا ہے۔ سکھ یاتریوں کیلئے ہر ممکن سہولت مہیا کی جاتی ہے۔ گوردوارے کے وسط میں ہری ہر مند، سروور ( تالاب ) پنجہ صاحب ہیں۔ سروور میں نہانے اور پنجہ صاحب کے سامنے ہاتھ جوڑنے کے سوا تمام مذہبی رسوم ہر مندر میں ادا کی جاتی ہیں۔ آغاز عرضداشت سے ہوتا ہے۔ یہ عرضداشت طویل اور منظوم ہوتی ہے۔ ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ سے 34 میل اور لاہور سے 55 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ شہر سکھ مت کے بانی گرونانک کا جنم استھان ہے اس لئے سکھوں کیلئے بہت متبر ک ہے۔ یہاں سکھوں کے اور بھی گوردوارے ہیں، یہاں دنیا بھر کے سکھ یاتری خصوصاً گورنانک کے جنم دن کے موقع پر آتے ہیں۔ یہاں گورونانک بازار، انارکلی بازار، ریل بازار اور تنگ بازار شہر کے اہم تجارتی مراکز ہیں۔
بابا گرو نانک ایک درویش تھے، ان کی تعلیمات انسان دوستی کے حوالے سے تھیں، وہ ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے مگر سوچ کے لحاظ سے مسلمانوں کے قریب تھے۔ وہ انسانوں سے محبت کرتے تھے اور ان کا طریقہ کار صوفیانہ تھا، وہ عدم تشدد کے پیروکار تھے اور مذہبی منافرت نام کی کوئی چیز ان میں نہ تھی۔ پیدائش سے وفات تک ان کے حالات جیسا کہ تلونڈی میں پیدائش، بچپن کے دن، تعلیم، بچپن کی مشغولیت، بغداد، سری لنکا اور دوسرے علاقوں کے حالات پڑھتے ہیں تو وہ سچے توحید پرست اور خدا کو ماننے والے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے بابا گرونانک کے حضور اشعار پیش کرتے ہوئے کہا:
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
بتکدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نور ابراہیم سے آذر کا گھر روشن ہوا
مغلیہ عہد کے آخری ایام میں سکھوں کی یورش، سکھ جتھوں جن کو سکھ مثلوں کا نام دیا گیا، کی لوٹ مار اور قتل و غارت اور ما بعد بھنگی مثل کی طرف سے صوبہ لاہور اور صوبہ ملتان پر قبضے کے بعد مسلمانوں پر ظلم و بربریت اور اس کے بعد تقسیم کے وقت مشرقی پنجاب میں سکھوں کے مظالم پر تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔ آج بھی ظلم اور زیادتی کی ہر بات کو سکھا شاہی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ سکھ اپنی پگڑی اور زبان کو ثقافتی نہیں بلکہ مذہب کا حصہ کہتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ ثقافتی طور پر اپنے صوبے کے نام پنجاب پر اکتفا نہیں کر رہے بلکہ وہ مذہبی طور پر خالصتان کی تحریک چلا رہے ہیں۔ دنیا میں امن انسانوں کے درمیان بھائی چارے اور ثقافتی ہم آہنگی کے ذریعے ممکن ہے۔ صوفی سب سے بڑا موحد اور توحید پرست ہوتا ہے کہ اسے ہر شئے میں خالق حقیقی کا ظہور نظر آتا ہے۔ آج انسانیت کے اسی پیغام کی ضرورت ہے سرائیکی شاعر خواجہ فرید نے فرمایا:
رکھ تصدیق نہ تھی آوارہ
کعبہ قبلہ دیر دوارہ
مسجد مندر ہکڑو نور
سمجھ سُنجانڑی غیر نہ جانڑی
سبھ صورت ہے عین ظہور