اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرف سے دو روزہ خواجہ فرید کانفرنس کا اہتمام ہوا، پہلی نشست کافی نائٹ کے حوالے سے تھی، ملک کے نامور فنکاروں نے حصہ لیا۔ دوسرے دن یونیورسٹی آڈیٹوریم میں خواجہ فرید سیمینار ہوا، صدارت وائس چانسلر ڈاکٹر انجینئر پروفیسر اطہر محبوب نے کی، مہمان خصوصی دربار عالیہ کوٹ مٹھن کے سجادہ نشین خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ تھے۔ نشست سے اکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر محمد یوسف خشک، سابق وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر شہزاد قیصر، سابق ایم پی اے سید تابش الوری، ڈائریکٹر تعلقات عامہ ریاض الحق بھٹی، ملک خدا یار چنڑ، سابق چیئرمین ہسٹری شاہد حسن رضوی، سابق چیئرمین سرائیکی ڈیپارٹمنٹ نصر اللہ خان ناصر، مجاہد جتوئی، ڈاکٹر انوار احمد، خواجہ راول معین کوریجہ و دیگر نے خطاب کیا۔ کمشنر بہاولپور چوہدری آصف اقبال نے کہا کہ خواجہ فرید سرائیکی وسیب نہیں پورے خطے کیلئے فخرکا باعث ہیں۔ ان کی شاعری ہر درد مند انسان کے دل کی ترجمان ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان خان بزدار کی نمائندگی انکی ترجمان سمیرا ملک نے کی۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ کی سوچ اور ویژن کے مطابق حکومت صوفیا کی تعلیمات کو عام کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریگی۔ انہوں نے کہا کہ آج کی کانفرنس کے موقع پر وزیراعلیٰ اور حکومت پنجاب کی طرف سے وائس چانسلر اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ لینگویج اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ڈاکٹر جاوید چانڈیونے کہا کہ قریباً 22 سال کے وقفہ کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی میں خواجہ فرید کانفرنس منعقد ہو رہی ہے اور وائس چانسلر سمیت پوری ٹیم نے دن رات کام کیا ہے۔ اس کے ساتھ ان کی محنت اور تجسس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹی میں 11 ہزار داخلے تھے، جوکہ ڈاکٹر اطہر محبوب کے آنے کے بعد داخلوں کی تعداد 35 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ راقم نے کہا آج ہم کانفرنس کے موقع پر مطالبہ کرتے ہیں کہ فرید محل چاچڑاں شریف کو میوزیم بنایا جائے خواجہ فرید چیئر کو فنکشنل کیا جائے۔ یونیورسٹی میں سندھیالوجی کی طرز پر سرائیکیالوجی کا ادارہ قائم کیا جائے۔ جس طرح بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی عالیشان بلڈنگ تعمیر کی گئی ہے، اسی طرح اسلامیہ یونیورسٹی میں بھی الگ عمارت قائم کی جائے اور خواجہ فرید کے دیوان پر یونیورسٹی کا سرائیکی شعبہ تحقیق کرائے اور اسے درست حالت میں شائع کرایاجائے کہ بعض ماہرین فریدیات نے سستی شہرت کے لئے اس میں رد و بدل کر دیا ہے۔ میں نے یہ بھی گزارش کی کہ یونیورسٹی کے رحیم یارخان اور بہاولنگر کیمپس میں سرائیکی شعبے کھولنے کے ساتھ کیمپس کا سلسلہ تحصیل سطح پر بھی شروع کیا جائے۔
وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی ڈاکٹر اطہر محبوب نے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ بہت جلد اسلامیہ یونیورسٹی میں خواجہ فرید انٹرنیشنل کانفرنس منعقد ہوگی اور کانفرنس کے موقع پر جو تجاویز پیش کی گئی ہیں اور مطالبات کئے گئے ہیں، ہم ان کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ خواجہ فریدؒ ایک شخص نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہیں۔ خواجہ فرید ؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ آپ کا کلام انسان دوستی کے حوالے سے ہے، تصوف اور معرفت کے حوالے سے ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے بجا طور پر کہا کہ خواجہ فرید ؒ بہت بڑے شاعرہیں مگر ان کا کلام ایک علاقے میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ بات بذات خود اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کے کلام کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے اور مختلف حوالوں سے خواجہ فرید کے کلام، ان پیغام پر تحقیق کی جائے۔ خواجہ فرید کانفرنس کے موقعہ پر مقررین کا کہنا تھا یہ خطہ فرید کا دیس اس لئے کہلاتا ہے کہ اس علاقے پر ان کی شاعری کے بہت اثرات ہیں، اچھی بات ہے کہ رحیم یارخان میں ایک سرکاری کالج کا نام خواجہ فرید کالج ہے اور رحیم یارخان میں خواجہ فرید انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی قائم ہوئی موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کو ابتدائی دنوں میں یونیورسٹی کے اجراء اور اسکے استحکام کیلئے کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ ٹھیک ہے کہ یونیورسٹی وہاں کی ضرورت تھی کہ رحیم یارخان تین صوبوں کا سنگم ہے، اس لئے یونیورسٹی کو دوام حاصل ہوا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یونیورسٹی کے دوام میں یونیورسٹی کے نام کی برکت بھی شامل ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ خواجہ فریدؒ کے فن اور فکر پر زیادہ سے زیادہ کام کی ضرورت ہے، خواجہ فرید کانفرنس کا انعقاد اس سلسلے کی کڑی ہے۔
کانفرنس اس لحاظ سے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ مقررین نے خواجہ فرید کی زندگی کے اہم پہلو اجاگر کئے۔ خواجہ فریدؒ خود بہت بڑے عالم تھے اور اہلِ علم کا احترام فرماتے تھے مگر انہوں نے کٹھ ملائیت کی ہمیشہ مخالفت کی جیسا کہ آپ نے خود فرمایا "مُلاّں نہیں کہیں کار دے، شیوے نہ جٖانْن یار دے، سمجھن نہ بھیت اسرار دے، ونجٖ کنڈ دے بھرنْے تھئے دڑنڑیں "۔ خواجہ فریدؒ تکبر کو شیطانی صفت قرار دیتے تھے۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ انسان کا اصل اس کا باطن ہے۔ آپ کے نزدیک خودکو آراستہ کرنا محض ایک خود فریبی ہے۔ مولوی صاحبان میں شیخی، تکبر، تصنع، بناوٹ وغیرہ کو آپ پسند نہ فرماتے تھے۔ قول و فعل کے تضاد کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ آپ کو مولوی صاحبان کے خشک رویے پسند نہیں تھے۔ اس لئے آپ نے فرمایا "عشق دی بات نہ سمجھن اصلوں، اے ملوانْے رُکھڑے"۔ خواجہ فریدؒ انسانیت کے قائل تھے، اجتماعیت کے قائل تے وہ فرقے اور تقلید کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ آپ رواداری اور معاملہ فہمی کے قائل تھے۔ انتہا پسندی کو اچھا نہ سمجھتے تھے۔ انسان دوستی کی تعلیم کے قائل تھے۔ بلا شبہ خواجہ فرید اپنے عہد کے عظیم صوفی شاعر ہیں۔ کوٹ مٹھن میں اُن کا دربار مرجع خلائق ہے مگر افسوس کہ محکمہ اوقاف کی طرف سے زائرین کیلئے بہتر سہولتیں میسر نہیں، حالانکہ محکمہ اوقاف کے پاس ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ زمین محکمہ اوقاف کے پاس وقف ہے دیگر معاملات اس کے علاوہ ہیں۔ اچھی بات ہے کہ وزیر اعلیٰ کی ترجمان نے کانفرنس میں حکومت کی نمائندگی کی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ کوٹ مٹھن میں خواجہ فرید یونیورسٹی بنائی جائے اور خواجہ فرید کی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ لاہور میں ایوان اقبال کی طرز پر کوٹ مٹھن میں ایوان فرید بنایا جائے اور جس طرح سرکاری سطح پر اقبالیات پر کام ہوا ہے اسی طرح سرکاری سطح پر فریدیات پر بھی کام کیا جائے۔