Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Naqisan Ra Pir Kamil Kamilan Ra Rehnuma

Naqisan Ra Pir Kamil Kamilan Ra Rehnuma

کائنات میں مادی ترقی نے جہاں انسان کو سہولتیں دی ہیں، وہاں مسائل بھی پیدا کئے، اس ترقی نے انسان کو انسان سے چھین لیا اور انسانیت جاتی رہی۔ ان حالات میں بزرگان دین نے انسان کو انسان سے جوڑنے کے عمل کو جاری رکھا، ان میں ایک نام حضرت داتا گنج بخشؒ کا ہے۔ آج کی انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت کے پر آشوب دور میں بزرگانِ دین کی تعلیمات کو عام کرنے اور اسے قومی نصاب کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ کا 977 ویں سالانہ عرس مبارک کی تقریبات اختتام پذیر ہو گئیں۔ عرس کی تقریبات میں چالیس آستانوں کے سجادہ نشینوں سمیت لاکھوں افراد اور اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اس موقع پر محکمہ اوقاف کی طرف سے 30 لاکھ روپے کی گرانٹ جاری کی گئی تھی۔ کانفرنس میں روزنامہ 92 نیوز کے CEO میاں محمد رشید نے اپنے صاحبزادے میاں حسن کے ہمراہ حاضری دی اور نوافل ادا کرنے کے ساتھ حضرت داتا گنج بخش ؒ کے حضور عقیدت کے پھول نچھاور کئے اور فاتحہ خوانی کے ساتھ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ بزرگان دین کے صدقے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت فرمائے۔ حضر ت داتا گنج بخش کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے۔ عرس کے علاوہ روزانہ لاکھوں افراد حاضری دیتے ہیں اور مراد پاتے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش کے بارے میں یہ شعر زبان زد عام و خاص ہے کہ " گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا، ناقصاں را پیر کامل کاملہ رارہنما"۔

حضرت علی بن عثمان الہجویری ؒ 400 ہجری میں غزنی کے ایک گاؤں ہجویر میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب سات واسطوں سے سیدنا امام حسن ؓ سے ملتا ہے۔ آپ ؒ نانا، دادا دونوں واسطوں سے سید ہیں۔ اصل نام مبارک علی کنیت ابوالحسن لقب داتا گنج بخش اور والد کا نام عثمان ہے۔ اس طرح آپ کو حضرت سید ابوالحسن علی بن عثمان جلابی ہجویری داتا گنج بخشؒ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ آپ جس گھر میں پیدا ہوئے وہ متقی، پرہیزگار ہونے کے ساتھ ساتھ حق پرست گھرانہ تھا، آپ کے کنبہ میں فقہی، محدث، مفسر اور کاملین پیدا ہوئے۔ آپ کی تربیت کامل اکمل شخصیات کے ہاتھوں ہوئی۔ بچپن سے نیک تھے اوت تعلیم کی طرف رجحان تھا، اصول کے مطابق قرآن پاک کی تعلیم مکمل کی اور قابل ترین اساتذہ کی شفقت حاصل ہوئی اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کو پڑھانے والے بہت بڑے عالم تھے جن کے زیر سایہ آپ نے تعلیم مکمل کی۔

علم کی تکمیل کے بعد آپ نے سیاحت کے لئے رخت سفر باندھا اور وسیر فی الارض کے فرمان کے مطابق دنیا کی سیر کیلئے روانہ ہوئے۔ اس دوران آپ نے مختلف ممالک کا دورہ کیا۔ مختلف ممالک کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ تذکرہ نگاروں کے مطابق سفر کے دوران آپ کی ملاقات حضرت شیخ ابوالفضل سے ہوئی، جنہوں نے آپ کی دنیا بدل دی۔ آپ کی طبیعت میں جذبہ و شوق پیدا ہوا اور آپ کی ان سے بیعت ہوئی اور آپ میں ہمدردی و غمگساری کے جذبات جو پہلے سے موجود تھے میں اضافہ ہوا۔ آپ میں انسان دوستی کا جذبہ پیدا ہوا اور آپ مخلوق خدا کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے لگے۔ حضرت داتا گنج بخش نے انسان دوستی کے حوالے سے خلق خدا کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اپنے پاکیزہ اخلاق سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا، ان میں اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل تھے، آپ نے لوگوں کو شرک اور بدعت سے منع فرمایا اور دین کی دعوت اتنے خوبصورت انداز میں دی کہ ہزاروں مسلمان ہوئے، انہوں نے کلمہ پڑھا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔

حضرت داتا گنج بخش ؒ نے لاہور میں اپنے قیام کے دوران لاہور کو رنگ دیا، لاہور جو کہ راوی کے کنارے چھوٹی سی بستی تھی اور اپنی کتاب " کشف المحجوب " میں آپ نے لاہور کا تذکرہ اس طرح فرمایا کہ " لاہور یکے از مضافات ملتان است"، حضرت داتا گنج بخش کے طفیل لاہور نے اتنی ترقی کی ہے کہ آج لاہور کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ آپ کا دور تعلیم و تربیت اور علم و عرفان کا دور تھا، آپ نے دین کے فروغ کیلئے لاہور میں قیام کے دوران اسلام کی اشاعت کے لئے عظیم کارنامے سر انجام دیئے۔

علم و عرفان کے حوالے سے آپ نے بہت کتابیں تصنیف کیں، ان میں منہاج الدین، بحر القلوب، کتاب الاسرار، الفنا والبقا، کشف المحجوب و دیگر کتابیں شامل ہیں۔ کشف المحجوب کا شمار دنیا کی مشہور کتابوں میں ہوتا ہے۔ یہ کتاب تصوف کی اعلیٰ ترین کتاب ہے۔ اس کتاب میں آپ نے اس کتاب میں شریعت کے اتباع کو مدار بنایا ہے اور بندگی و عاجزی کی تعلیم دی ہے۔ بلاشبہ وہ حق کے پیکر ہیں اور ان کی تعلیمات رہتی دنیا تک موجود رہیں گی۔ آپ کی شان میں فارسی اشعار بہت ملتے ہیں جن میں ایک یہ کہ " سید ہجور مخدوم امم۔ مرکز و پیر سنجر را حرم "۔ اسی طرح درگاہ عالیہ خواجہ محمد یار فریدی ؒ گڑھی اختیار خان کے سجادہ نشین خواجہ غلام قطب الدین فریدی نے آپ کی شان میں نظم لکھی ہے جو کہ92 نیوز کے قارئین کی نذر کرتا ہوں:

مے گساروں کیلئے ساقی سرعام آ گیا

دست داتا سے اگر پینے کو اک جام آ گیا

اللہ اللہ ہو گیا کسی کا وظیفہ رات دن

در پہ ہندو بھی اگر کہتا ہوا رام آ گیا

آگئی کشتی میری جب بھی کبھی طوفان میں

سید ہجویر کا نام علی کام آ گیا

کیوں نہ مخدوم امم کے در پہ آتے تاج ور

بھیک لینے کیلئے خاص آگیا عام آ گیا

آرزو ہر ایک کی ایک پوری ہو گئی

صبح دم آیا سوالی یا سرِ شام آ گیا

کشف معجوبات سب کو نوازا جائے گا

جوئے دل ہر دل بے نقاب آخر ماہِ تام آ گیا

قطب ہے تیرے در کے مقدر کا ستارہ عوج پر

آپ کے مدحت سراؤں میں تیرا نام آ گیا