وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے دو دن کے دورے کے دوران متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا اور کہا کہ ترقی کا سفر نہیں رکے گا. وزیر اعلیٰ نے ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقوں میں متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا جو کہ خوش آئند بات ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس علاقے کی قبائلی حیثیت کو ختم کر کے اسے بندوبستی علاقہ میں شامل کیا جائے. اس سلسلے میں گزشتہ دور حکومت میں پنجاب اسمبلی سے قرارداد منظور ہوئی اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ علاقہ غیر کے انسان پتھر کے زمانے میں نہیں بلکہ 21ویں صدی میں سانس لینا چاہتے ہیں، وہ انسان ہیں ان کے انسانی حقوق بھی ہیں اور ان کے احساسات و جذبات بھی ہیں . ان کو بھی پاکستان اور آئین پاکستان کی فیوض و برکات سے حصہ حاصل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ تقسیم کے وقت جب مطلق العنان ریاستیں اور بادشاہتیں ختم کر دی گئیں تو ضروری ہے کہ سرائیکی خطے میں سرداری اور تمنداری کا وجود بھی ختم ہونا چاہئے۔ ردار عثمان خان بزدار صوبے کے سربراہ بھی ہیں اور تمن بزدار کے چیف بھی، اس کے ساتھ وہ ایک تعلیم یافتہ قانون دان ہیں، یہ کام وہ خود کریں گے تو ان کا نام تاریخ کے سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ نے اپنے دورے کے دوران فورٹ منرو کیڈٹ کالج کی تکمیل کے لئے ایک ارب روپے دینے کا اعلان کیاجوکہ خوش آئند عمل ہے، اس کے ساتھ وزیر اعلیٰ کو ملتان کیڈٹ کالج اور خانپور کیڈٹ کالج کے لئے بھی فنڈز مہیا کرنے چاہئیں اور ڈی جی خان کیڈٹ کالج کے منصوبے کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہئے۔ ڈی جی خان کیڈٹ کالج سابق صدر فاروق خان لغاری کے دور میں منظور ہوا اور سخی سرور روڈ پر کئی سالوں تک کیڈٹ کالج کا بورڈ بھی لگا رہا مگر وہ منصوبہ ابھی تک فائلوں میں دفن ہے، اسی طرح سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں ملتان کیڈٹ کالج کا منصوبہ بنا اور اس مقصد کے لئے زمین بھی حاصل کر لی گئی، مگر سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اس منصوبے کو آگے نہ بڑھنے دیا، خانپور کیڈٹ کالج جس کے لئے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ابتدائی طور پر دس کروڑ روپے فوری جاری کر دیئے تھے اور مجوزہ منصوبے کے تحت جہاں 2013ء میں کلاسوں کا آغاز ہونا تھا ابھی تک نہ تو کیڈٹ کالج مکمل ہوا اور نہ کلاسوں کا اجراء ہوا، کیڈٹ کالج عسکری نرسری کا کام دیتے ہیں، وسیب کے لوگوں کا بھی حق ہے کہ ان کو پاک فوج میں اعلیٰ عہدے ملیں، یہ اس بنا پر بھی ضروری ہے کہ انگریز دور میں ملتان رجمنٹ اور بہاولپور رجمنٹ موجود تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ملتان رجمنٹ کے افسروں نے مسلم دشمنی کی بناء پر انگریز اقتدار سے بغاوت کی جسے آج کریڈٹ کے طور پر لینا چاہئے، اسی طرح سرائیکی ریاست بہاولپور نے اپنی سپاہ سمیت سب کچھ پاکستان کو دیدیا مگر افسوس کہ بہاولپور رجمنٹ کو اس کی شناخت کے ساتھ وسعت دینے کی بجائے اسے بلوچ رجمنٹ میں تحلیل کر دیا گیا۔
وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے ڈی جی خان بارڈر ملٹری پولیس اور بلوچ لیوی میں نئی بھرتیاں اور اہلکاروں کی ترقی اور فنڈز میں اضافے کا بھی اعلان کیا۔ حالانکہ بارڈر ملٹری پولیس اور بلوچ لیوی کو بھی ڈسٹرکٹ پولیس کا حصہ ہونا چاہئے کہ اس کے الگ تشخص سے سٹیٹ کے اندر سٹیٹ کا تصور ابھرتا ہے، اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ بارڈر ملٹری پولیس اور بلوچ لیوی میں تعیناتیاں میرٹ کی بجائے ہر تمندار کی صوابدید پر ہوتی ہیں، جس سے سرداری نظام مضبوط ہوتا ہے، عجب بات ہے کہ چودہ سو سال قبل محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ نے جس سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان فرمایا تھا آج بھی اس کے مظاہر وسیب کے قبائلی علاقوں میں نظر آتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اپنے دورے کے دوران مختلف جگہوں پر لنگر خانے اور پناہ گاہوں کا بھی افتتاح کیاجبکہ وسیب کو لنگر خانے یا پناہ گاہوں کی نہیں بلکہ ٹیکس فری انڈسٹریل زونز کی ضرورت ہے۔
وزیر اعلیٰ نے راجن پور میں یونیورسٹی اور دربار خواجہ فرید اور دربار سخی سرور کی توسیع کے لئے فنڈز کا بھی اعلان کیا. جوکہ اچھی بات ہے مگر اس سے بڑھ کر سخی سرور اور کوٹ مٹھن میں اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ضعیف الاعتقادی پر مبنی خانقاہی سسٹم کی بجائے اعلیٰ تعلیم پر مبنی تحقیق اور صوفیاء کے انسان دوستی کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے، وزیر اعلیٰ نے ڈی جی خان کے ایک تعلیمی ادارے کو چاکر خان یونیورسٹی کا نام دیا ہے حالانکہ چاکر خان کے مقابلے میں حضرت سخی سرور کی بہت زیادہ خدمات ہیں۔ راجن پور یونیورسٹی کو بھی سرائیکی سائنس یونیورسٹی کا نام ملنا چاہئے اور یہ پہلا موقع ہوگا کہ ایک پاکستانی زبان میں یونیورسٹی کی سطح پر سائنسی تعلیم کا آغاز ہو رہا ہوگا، وزیر اعلیٰ نے ڈی جی خان کے دو دن کے دورے کے دوران منصوبوں کا اعلان کرتے ہوئے اسے جنوبی پنجاب کی ترقی کا نام دیاحالانکہ وزیر اعلیٰ کا تعلق اس علاقے سے ہے، اور ان کو یہ مقام اس علاقے کے مینڈیٹ کی وجہ سے حاصل ہوا۔
آخر میں یہ بھی کہوں گا کہ ترقیاتی فنڈز تمام پسماندہ علاقوں تک پہنچنے چاہئیں، ہم میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے اس بناء پر مخالف تھے کہ انہوں نے ترقی کا محور و مرکز صرف لاہور کو بنایا تھا، ان کے بعد مشرف نے حصے سے زیادہ فنڈز کراچی کو دیئے تو ہم نے اس پر بھی اعتراض کیا، اور جب یہی کام یوسف رضا گیلانی نے ملتان کے لئے کیا تو ہم نے اس کی بھی شدید مخالفت کی اور اب وزیراعظم عمران خان کو بھی واضح کرتے ہیں کہ وہ صرف پشتون قبائلی علاقہ جات کو فوکس نہ کریں بلکہ وسیب کے چولستان اور سندھ کے تھر کو بھی دیکھیں جہاں آج بھی انسان پیاس سے مر جاتے ہیں۔ اس طرح عثمان خان بزدار کو بھی صرف ڈی جی خان نہیں بلکہ پوٹھوہار پنجاب اور وسیب کے تمام پسماندہ علاقوں کو برابری کی بنیاد پر فنڈز مہیا کرنے چاہئیں بصورت دیگر نہ خالق معاف کرے گا نہ اس کی مخلوق۔