پیمرا نے نوازشریف کی تقریر نشر کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ " پیمرا قانون کے تحت اشتہاری اور مفرور ملزمان کی تقاریر یا انٹرویوز نشر نہیں ہوسکتے"۔ سوال یہ ہے کہ پیمرا کا قانون آج نہیں بنا پہلے سے موجود ہے، مگر اس قانون کے ہوتے ہوئے اے پی سی کے موقع پر تمام چینلز کو نوازشریف کی تقریر نشر کرنے کی اجازت کس نے دی؟ ، نوازشریف کی تقریر ممکن ہی نہیں کہ بڑوں کی اجازت کے بغیر نشر ہوتی۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ سابق صدر جنرل پرویزمشرف بھی اشتہاری، مفروراور سزایافتہ ہیں ان پر غداری کا مقدمہ قائم ہوا، ان کی انٹرویوز بھی چینلز پر نشر ہوتے رہے، اخبارات میں بیان بھی شائع ہوتے ہیں، وزارت اطلاعات کو اس بارے بھی اپنی پالیسی واضح کرنا ہوگی کہ عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ دو نہیں ایک پاکستان ہے، عمران خان کو اپنے اعلان کے مطابق دوہرے معیار ختم کرنا ہونگے۔ دوسری طرف میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ خاموش نہیں رہ سکتا، کوئی چپ کرانے کی کوشش نہ کرے، سیلیکٹڈ کو لانے والے بتائیں عوام کا مینڈیٹ چوری کیوں کیا گیا؟ کیاہم گائے اور بکریاں ہیں؟ جیسے چاہو گے ویسے چلائو گے۔
میاں نوازشریف کے بیان کے ردعمل میں مراد سعید اور شہباز گل کا کہنا ہے کہ نوازشریف کا ذہنی توازن خراب ہوچکا ہے۔ فواد چوہدری کا بیان قابل توجہ ہے جس میں انہوں نے کہا کہ نوازشریف کو باہر بھیجنے والوں کو احساس ہوگیا ہوگا کہ انکافیصلہ غلط تھا۔ فواد چوہدری کو وضاحت سے بات کرنی چاہئے کہ ان کا اشارہ کس کی طرف ہے؟ میاں نوازشریف کو باہر بھیجنے کا فیصلہ عمران خان کی حکومت کا فیصلہ تھا۔ اب فواد چوہدری کو گول مول بات کرنے کی بجائے قوم کو واضح بتانا چاہئے کہ نوازشریف کو باہر کس نے بھیجا؟ وزیراطلاعات شبلی فراز کی اس بات میں بھی وزن باقی نہیں رہتا کہ نوازشریف ملک و قوم کے مجرم اور سزایافتہ ہیں وہ الطاف حسین بننے کی کوشش نہ کریں، گزارش اتنی ہے کہ پاکستانی جیلوں میں لاکھوں سزایافتہ مجرم موجود ہیں، ان میں ہزاروں بیمار ہونگے اورسینکڑوں موت و حیات کی کشمکش میں موجود ہیں، سوال یہ ہے کہ ان کو تو بیرون ملک علاج کی سہولت نہیں ملتی مگر نوازشریف کو مل جاتی ہے، اس بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ یہاں امیر کیلئے الگ اور غریب کیلئے الگ قانون ہے، جب تک غیر منصفانہ پالیسیاں اور دوہرے معیار باقی رہیں گے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے جائیں گے۔
اسی کشمکش کے دوران آج وزیراعظم عمران خان کا اہم بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے، وزیراعظم کا کہنا ہے کہ فوج نے نوازشریف کو چوسنی لگا کر سیاستدان بنایا، نوازشریف کبھی جمہوری نہیں رہے۔ پاکستان میں سول اور فوجی تعلقات کا مسئلہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نوازشریف پر الزام لگا رہے ہیں یا فوج کو دوش رہے ہیں کہ وہ نوازشریف جیسے سرمایہ داروں کو چوسنی لگا کر سیاستدان بناتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا پورا بیان توجہ کا طالب ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ماضی میں کسی آرمی چیف نے کوئی غلطی کی تو کیا ہمیشہ کیلئے پوری فوج کو بُرا بھلا کہیں؟ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ جنرل راحیل شریف نے نوازشریف کے کہنے پر ہمیں دھرنا ختم کرنے کو کہا مگر ہم نے انکار کردیا۔ وزیراعظم عمران خان کی ان تمام باتوں کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں خودمختیار وزیراعظم ہوں اور اپنی جمہوری طاقت سے فیصلہ کرتاہوں۔ قوم کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں اور آئینی وجمہوری نقطہ نظر سے ہم کو جرات کے ساتھ فیصلے کرنے چاہئیں۔
وزیراعظم کایہ بھی کہنا ہے کہ اگر جنرل راحیل شریف نے نواز شریف سے استعفیٰ مانگا تھا تو وہ انہیں برطرف کر دیتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی آرمی چیف مجھ سے پوچھے بغیر کارگل کا حملہ کرتا تو میں اُسے فارغ کردیتا۔ وزیراعظم کایہ بھی کہنا ہے کہ جنرل باجوہ مجھ سے پوچھ کر اپوزیشن سے ملے، وزیراعظم کی ان باتوں کو قوم نے دھیان سے سنا اور تجزیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، ہمارامشورہ ہے کہ جس طرح حالات کی بہتری کیلئے جنرل باجوہ نے سیاستدانوں سے ملاقات کی، اس طرح سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کیلئے ملاقاتوں کا سلسلہ عمران خان کو شروع کرنا چاہئے، جہاں تک الزامات کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جو الزامات میاں نوازشریف کی طرف سے عمران خان کو دئیے جارہے ہیں وہی سب کچھ میاں نوازشریف اور ان کی جماعت کرتی رہی ہے، ملک میں جو سیاسی اُلجھائو پیدا ہوچکا ہے اس پر پوری قوم فکر مند ہے۔
اس وقت میں کراچی میں ہوں، آج بہت سے سیاسی ورکر ملک حاجی رب نوازکے گھر پر جمع ہیں، ورکرز نے سوال کیا کہ اس کشمکش میں وسیب کا کیا بنے گا۔ کیا عمران خان صوبہ بنا سکیں گے، میں نے کہاکہ صوبہ بنانے کیلئے پارلیمانی جماعتوں کی حمایت ضروری ہے، حمایت حاصل کرنے کیلئے ماحول سازگار بنایا جاتا ہے، افہام و تفہیم سے کام لیا جاتاہے، مذاکرات کے دروازے کھولے جاتے ہیں مگر ابھی تک تو اس بات کے دور دور تک آثار نظر نہیں آرہے تو ہم کس طرح قیاس کریں کہ موجودہ حکومت صوبہ بنانے کیلئے سنجیدہ ہے۔ دوسری جانب بھٹ شاہ میں سندھی زبان کے معروف صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒسئیں کا عرس شروع ہوچکاہے، سندھ حکومت کی طرف سے وسیع انتظامات کیے گئے ہیں اور سندھ حکومت کے ماتحت سندھی اداروں کی طرف سے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے بارے میں کتابوں کی اشاعت بھی ہوئی ہے۔ کاش صوفی شاعر خواجہ غلام فریدؒ سئیں کے عرس پر اس طرح کے انتظامات دیکھنے میں آتے۔ کراچی میں شدید بارشوں کے بعد بحالی کا عمل سست روی سے جاری ہے، کراچی دراصل دو حصوں میں تقسیم ہے، زیادہ حصہ انکروچمنٹ کا ہے اس بناء پر وفاق اور حکومتِ سندھ کو ملکر اس کا حل نکالنا ہوگااور کراچی کو فنڈنگ ضرورت ہے جس طرح مشرف دور میں ہوتی رہی۔ روزنامہ 92نیوز کی خبر کے مطابق کراچی کے سابق کمانڈر جنرل مظفر عثمانی اور جنرل نصیر اختر کاانتقال ہواہے، جنرل مظفر عثمانی کراچی میں اور جنرل نصیر اختر لاہور میں فوت ہوئے، کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جنرل نصیر اختر کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں، دعا ہے کہ خداوندِ کریم مرحومین کی مغفرت فرمائے۔