Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Senate Election Ki Gehma Gehmi

Senate Election Ki Gehma Gehmi

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سینٹ انتخابات ہائی جیک کرنے والے جمہوریت پر دھبہ ہیں، مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان سے ٹیلی فون پر وزیر اعظم نے مزید کہاکہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کا واحد راستہ اوپن ووٹنگ ہے۔ دوسری طرف پشاور میں وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے ارکان سے ایک ملاقات کی، کہا جاتا ہے کہ14 ارکان قومی اسمبلی، 6 اراکین صوبائی اسمبلی، اور کچھ وزیر، مشیر اجلاس سے غیر حاضر تھے۔ ارکان کی غیر حاضری پر تجزیوں اور تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کی بناء پر گہما گہمی بڑھ گئی ہے۔ سیدیوسف رضا گیلانی پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار ہیں، مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ سینٹ الیکشن کا معرکہ سر کریں گے۔ جہاں اپوزیشن کی طرف سے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہاہے وہاں حکومت نے بھی اس معاملہ کو اپنی اناء کا مسئلہ بنالیا ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ یوسف رضا گیلانی سینیٹر نہ بن سکیں کہ وہ اگر سینیٹر بنتے ہیں تو ان کے چیئرمین سینٹ بننے کا راستہ بھی ہموار ہو جائے گا۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو حکومت کا خوف بلاوجہ بھی نہیں کہ ڈھائی سال میں تحریک انصاف کی مقبولیت میں بہت کمی آئی ہے اور جیسا کہا جاتا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے، اس کا اظہار حالیہ ضمنی الیکشن میں ہوا۔

سید یوسف رضا گیلانی کے مسئلے پر حکومت کو اناء کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے کہ سینٹ میں ان کی موجودگی سے سینٹ کے وقار میں اضافہ ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ جو سیاستدان جیل یاترا نہ کرے وہ سیاسی رہنما نہیں۔ یوسف رضا گیلانی 2001ء سے 2006ء تک جیل میں رہے، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے قواعد کے خلاف ملازمتیں دیں جس پر سید یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ اگر یہ جرم ہے تو میں یہ جرم کرتا رہوں گا۔ سید یوسف رضا گیلانی 9جون 1952ء کو مخدوم علمدار بخاری کے ہاں پیدا ہوئے، گورنمنٹ کالج لاہورسے گریجویشن اور 1976ء میں پنجاب یونیورسٹی سے صحافت کی ڈگری حاصل کی۔ 1983ء میں چیئرمین ضلع کونسل ملتان، 1985ء میں ایم این اے، 1986ء میں وفاقی وزیر، 1988ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے اور وزیر بنے، 1993ء کے الیکشن میں کامیاب ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کو قومی اسمبلی کا سپیکر بنا دیا، 1998ء میں پی پی کے وائس چیئرمین بنا دئیے گئے اور 25مارچ 2008ء کو پیپلز پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم بنا دئیے گئے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم بننے کے بعد وسیب کو صوبہ بنانے کے علاوہ سرائیکی بینک اور کیڈٹ کالج سمیت وسیب کے لئے بہت سے منصوبوں کا اعلان کیا چند ایک منصوبوں کی تکمیل ہوئی مگر اہم منصوبے تشنہ تکمیل رہے جس پر سید یوسف رضا گیلانی پر بہت اعتراض ہوئے، ان اعتراضات پر سید یوسف رضا گیلانی نے ہماری طرف سے منعقد کی گئی ایک تقریب میں کہا کہ ہمارے خلاف بے سروپا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے جبکہ ہم نے ملک اور قوم کے لئے وہ کام کئے جو پہلے کسی نے نہ کئے تھے۔

ہم بات کررہے تھے سید یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے کہ سیدیوسف رضا گیلانی کی سبکدوشی پرجہاں وسیب میں فیصلے پر تحفظات تھے وہاں وسیب کی قوم پرست جماعتوں کو اعتراض تھا کہ انہوں نے صوبے کے نام پر وسیب کے لوگوں کو لالی پاپ دیا، اس سلسلے میں اُن دنوں ہمارے ادارے جھوک کی طرف سے ملتان پریس کلب میں تقریب کا اہتمام ہوا جہاں سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایک پروپیگنڈہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی مہاجر صوبہ کے خوف سے سرائیکی صوبہ کے ایجنڈے سے پیچھے ہٹ گئی، حالانکہ یہ غلط ہے۔ سرائیکی صوبے کی سینٹ سے پیشرفت ہو چکی ہے، صوبے کا نام کا مسئلہ ہے یا حدود کا مسئلہ ہے یہ سب کچھ پارلیمنٹ نے طے کرنا ہے، اگر سرائیکی صوبے کے علاوہ نئے صوبے کی بات ہے تو وہ بھی پارلیمنٹ میں آئے گی، پنجاب اسمبلی سے دو صوبوں کی قرارداد منظور کی جو کہ اس خطے کے لوگوں کو آپس میں لڑانے اور صوبے کا مقدمہ خراب کرنے کی ایک چال تھی مگر پیپلزپارٹی نے اسے ناکام بنایا اور ایک صوبے کی سفارش کی۔ پیپلزپارٹی وفاق پاکستان کی زنجیر ہے، یہ واحد جماعت ہے جس کی چاروں صوبوں میں جڑیں ہیں، پیپلزپارٹی نے اپنیدور اقتدار میں آغاز حقوق بلوچستان کا منصوبہ دیا، خیبر پختونخواہ کو شناخت دی، پنجاب کے پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے اقدامات کیے، سندھ کو وفاقی ملازمتوں میں اس کے حصے کا حق دیا، وسیب کے دریائوں پر پل تعمیر کیے جیسا کہ ملتان میں ہیڈ محمد والا، جلال پور پیروالا میں ایمن والا پل، چاچڑاں کوٹ مٹھن کے درمیان شہید بے نظیر بھٹو برج اور شور کوٹ برج کے علاوہ ملتان فیصل آباد موٹر وے اور دوسرے بہت سے منصوبے شروع کیے، اسی بناء پر پاکستان پیپلزپارٹی کی شہید محترمہ بے نظیر بھٹوکو وسیب میں احترام حاصل ہے۔

بلاشبہ آج زبردست سیاسی ماحول بنا ہواہے سینٹ الیکشن کے موقع پر وسیب میں بہت چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں، وسیب کی طرف سے تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ جماعتیں وسیب سے ووٹ حاصل کرتی ہیں مگر سینٹ اور قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے ٹکٹ دیگر علاقوں کو دے دیتی ہیں یہ اعتراض آج سے نہیں پہلے سے موجود ہے کہ محض یوسف رضا گیلانی کو ٹکٹ ملنے سے وسیب کے پورے حصے کی تکمیل نہیں ہوتی مسئلے کا حل صوبے کا قیام اور سنیٹ میں پورے حصے کا حصول ہے۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ پیپلز پارٹی چاہتی تو صوبہ بن سکتا تھا اس پر یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ اسی سنیٹ نے ہمارے دور میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ سرائیکی صوبہ کا بل پاس کیا۔ بل کا مقصد ہے آئین میں ترمیم، اعتراض کرنیوالے دوستوں کو قرارداد اور بل کے فرق کو سمجھنا چاہیے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ آئین میں صوبہ بنانے کا جو پروسیس ہے اس میں سے ایک حصے کی تکمیل ہو چکی ہے باقی کام برسراقتدار جماعت کوکرنا چاہیے اس مقصد کیلئے سیاسی ماحول کو سازگار بنانا ہو گا اور لڑائی جھگڑے ترک کرنا ہوں گے۔ سید یوسف رضا گیلانی کی تمام باتیں اپنی جگہ لیکن آئندہ کیلئے اُن کو روڈ میپ دینا ہوگاکہ کیا وہ اپنے وعدے کے مطابق صوبہ بنوائیں گے؟ اور اس بات کی بھی وضاحت دینا ہو گی کہ آج کرسی اور اقتدار کیلئے پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ پی ڈی ایم کی صورت میں ایک ہو چکے ہیں مگرصوبے کے مسئلے پر کیوں نہیں؟