Aqeeda Durust Kijiye Sahib
Abdullah Tariq Sohail129
کالے دھن کو سفید کرنے کی جو سکیم عمران خاں کی حکومت لائی ہے(اپنے ماضی کے "عقائد" کے برعکس) اس پر ایک ماہر نے شہ سرخی کے اوپر والی بڑی ضمنی سرخی میں لکھاہے کہ اس سکیم سے خزانہ بھرنے کا امکان معدوم ہے۔ معدوم یعنی ہے ہی نہیں، بعض مبصرین نے کہا ہے کہ بہت کم پیسہ آئے گا۔ یعنی معدوم سے کچھ کم پر بات ٹال دی۔ تو کیا یہ سکیم بے فائدہ ہے؟ نہیں کچھ تو فائد ہو گا۔ یونہی تو اتنی بڑی سکیم نہیں لائی گئی۔ شاہد خاقان عباسی اور خورشید شاہ نے کہا ہے کہ اس سے عمران خاں کے اپنے مسائل حل ہو جائیں گے یہی نہیں، ان کے رفقا کے بارے میں بھی وثوق سے کہا جا سکے گا کہ دیکھ لو، پورے صادق و امین ہیں۔ شکر کی صنعت کو 26ارب روپے کی سب سڈی دی گئی ہے۔ سچ ہے، رمضان میں "مستحقین و مساکین" کی مدد اعلیٰ اخلاقی حرکات میں شامل سمجھی جاتی ہے اور ان کی اخلاقی حرکیات تو ویسے ہی مانی تانی ہیں۔ ٭٭٭٭٭سکیم کے تحت کالا دھن ایک ڈیڑھ سے لے کر چھ فیصد تک ٹیکس دے کر گورا کیا جا سکے گا۔ رنگ گورا کرنے کی یہ کریم، مطلب سکیم اپنی جگہ، اس کی رعایت والی شرح کی داد دینا پڑتی ہے۔ ملک میں ہر شے کی خریداری پرعائد سیلز ٹیکس 18فیصد ہونے والا ہے۔ ایسے میں "مستحقین و مساکین" کو صرف ایک فیصد ٹیکس کی شرط دریا دلی نہیں تو کیا ہے۔ مطلب 99فیصد جائز ہے۔ صرف ایک فیصد ناجائز، وہ دے کر سو فیصد جائز کرا لو۔ عرض ہے کہ جہاں 99فیصد جائز سمجھ لیا گیا ہے۔ وہاں ہاتھی کی دم کے ایک بال کا کیا قصور ہے، اسے بھی کیوں نہ جائز قرار دے دیا جائے اور یہ فراخدلانہ اعلان ذرا سی فراخدلی کے اضافے کے بعد یکسر فراخدلانہ کر دیا جائے کہ بس اثاثوں کا اعلان کر دیں، بنا ٹیکس کے گورے ہو جائیں گے۔ ٭٭٭٭٭پریس کانفرنس میں شاہد خاقان عباسی نے سوالیہ اعتراض یا اعتراضی سوال کے انداز میں یہ اصول بیان کیا کہ عمران خاں کی کرپشن حلال ہے۔ ان کا اشارہ پارٹی کے فارن فنڈز اکائونٹس اور باہر کے ملکوں میں مبینہ "پراکسی جائیدادوں " کی طرف تھا۔ ان جائیدادوں پر کوئی تبصرہ کرنا تو ٹھیک نہیں ہو گا لیکن اصول کے بارے میں شاہد خاقان صاحب کے اعتراض اور سوال پر ایک ادھ سطر لکھنے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ بات یہ ہے کہ کرپشن حلال ہوتی ہے نہ حرام۔ یہ آدمی کا "عقیدہ" ہوتا ہے جسے دیکھ کر طے کیا جاتا ہے کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام۔ سٹیٹس کو پر ایمان نہ لانے یا اس سے انکار کا مرتکب ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کا ہر کام حرام ہے اور حرام کام کا انجام آلام نصیب ہوتا ہے۔ شاہد خاقان بھی توبہ کریں اور سٹیٹس کو پر ایمان لائیں۔ ٭٭٭٭٭ان دنوں کرپشن(اور بقول شاہد خاقان حلال کرپشن) بہت زوروں پر ہے۔ حلال کرپشن کے بانی ایوب خاں تھے، پھر ضیاء الحق اور ان کے رفقائے کار نے اس کام کو اوج ثریا سے کچھ ہی نیچے تک پہنچایا۔ ان کے ایک"رفقائے کارئے" اربوں کے ہتھیار اور میزائل ہڑپ کر لئے اور راتوں رات ارب کھرب پتی ہو گئے۔ نے اس حلال کرپشن کی تحقیقات کرانے کی نامسعود جسارت کی تو "رفقاء کار صاحب" نے سانحہ اوجڑی کیمپ کرا دیا، سینکڑوں شہری جان سے گئے۔ ان "رفقائے کار" کو احباب نے پیار سے فاتح کا نام دیا۔ لیکن ان کی فتوحات ان کے کام نہ آ سکیں۔ چند ہی دنوں بعد یہ رفقائے کار، رابن رافیل اور ضیاء الحق کے ساتھ بستی لال کمال میں "شہید" ہو گئے، فتوحات ان کے بچوں کو ڈیپازٹ ہو گئیں۔ ٭٭٭٭٭ضیاء الحق کے بعد پرویز مشرف آئے تو حلال کرپشن کو اوج ثریا سے بھی اوپر لے گئے۔ یعنی جو سنہری کتاب ایوب نے رقم آغاز کی تھی۔ اس کا آخری سے پہلا باب لکھ ڈالا۔ ٭٭٭٭٭آصف زرداری نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر تحریک چلائیں گے ان کے ساتھ کون ہو گا؟ ابھی تو جے یو آئی کے سوا کوئی نام سامنے نہیں ہے۔ مسلم لیگ کا "دیو" ایسی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ جن کی کڑیاں ڈھیلی ہونے کا امکان سال کے آخر تک تو ذرا بھی نہیں۔ مناسب ہو گا، حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے بجائے مہنگائی اور آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی "دستاویز غلامی" کے خلاف تحریک چلائی جائے۔ وہی دستاویز جس کے تحت پہلی بار ایسا ہوا کہ "معاہدے" کے بارے میں پریس ریلیز جاری کرنے کی حکومت کو اجازت نہ ملی جو پریس ریلیز آقائوں نے جاری کیا، کسی کو نہیں معلوم کہ "شرائط نامے" میں کیا کیا قتل نامے مستور ہیں۔