Hamare Zamane Ki Eid
Abdullah Tariq Sohail143
خدا سب کو آج کی عید مبارک کرے، سب کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ آج کی عید ہمارے زمانے کی عید سے کتنی مختلف ہو گئی اور زمانہ کیسے بدل گیا، یہ سوچ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور حسرت بھی۔ پہلے یہ بتا دینا مناسب ہے کہ "ہمارے زمانے" سے کیا مراد ہے۔ ہر نسل کا "ہمارا زمانہ" الگ ہوتا ہے۔ بالعموم بچپن، لڑکپن اور جوانی کا عہد "ہمارا زمانہ" بناتا ہے۔ ادھیڑ عمری میں آدمی اپنے "ہمارے زمانے"سے نکل کر صیغہ ماضی کا سفر شروع کرتا ہے اور آہستہ آہستہ پورے کا پورا ماضی میں چلا جاتا ہے اور بس دم زمانہ حاضر میں رہ جاتی ہے، جتنی دیر یہ دم بھی غائب نہیں ہو جاتی، وہ رہے گا تو زمانہ حاضر میں لیکن حیثیت اس کی ماضی کے زندہ مزار جیسی ہی ہو گی اور یہ "ہمارا زمانہ" کتنی جلدی بیت جاتا ہے۔ خدا نے آدمی کو کتنی کم عمر عنایت کی ہے اور زمانہ آخرت کا، یعنی جسے "خلود" کا نام دیا گیا ہے، سارا انحصار اسی مختصر سے عرصہ حیات پر ہے۔ عوض یک دو نفس قبر کی شب ہائے دراز۔ ٭٭٭٭٭بہر حال "ہمارا زمانہ" 1960ء کی دہائی میں شروع ہوتا ہے جب شعور کی آنکھ پرائمری سکول میں کھلی۔ تب کا سیاسی اور سماجی شعور اس سطح پر تھا کہ ہمارے سکول کے بیشتر بچے شاستری کو بھارت کا اور ایوب خان کو پاکستان کا بادشاہ سمجھتے۔ قصے کہانیوں میں پڑھتے تھے کہ ایک بادشاہ لڑائی میں مارا جائے تو ملک پر دوسرے بادشاہ کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ سردیوں کی ایک صبح ایک کلاس فیلو بھاگتا ہوا ہمارے گھر آیا اور مجھے جگا دیا، شاستری مر گیا ہے۔ جشن کی کیفیت طاری ہوئی، بھاگ کر باہر نکلے کہ بھارت پر پاکستان کے قبضے کا جشن ہو رہا ہو گا لیکن وہاں تو ایسا کچھ نہ تھا۔ معلوم ہوا، کہانیوں کا دور بہت پیچھے رہ گیا، آج کے دور میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے سیاسی اور سماجی شعور کی پہلی بڑی زقند تھی۔ اس زقند نے جو جھٹکا لگایا، اس کا قصہ الگ ہے۔ ٭٭٭٭٭چاند دیکھنا ہمارے زمانے کی عید کا لازمی جزو تھا، اب نہیں رہا۔ شام کو چھتیں بھر جاتیں، یوں سمجھئے کہ سارا شہر چھتوں پر ہوتا۔ نظر آ جاتا تو غل ہوتا اور چند ہی لمحوں بعد نقارہ بجتا۔ شہر میں دو تین نگارے تھے جن کی آواز ہر گھر میں سنی جاتی بلکہ شہر سے باہر بھی شہر تھا ہی کتنا۔ ایک میل کے "ریڈئس" میں ساری آبادی ختم ہو جاتی۔ جسے چاند نظر نہ آتا، وہ حیرت اور جھنجھلاہٹ میں پڑ جاتا کہ سب نے دیکھ لیا، مجھے کیوں نہیں دکھا۔ بہرحال، اس کا احساس محرومی بھی دور ہو جاتا اور اسے بھی نظر آ ہی جاتا۔ اب کسی چھت پر کوئی چاند کی روئیت کے لیے کھڑا نہیں ہوتا۔ نظر آئے گا تو پتہ چل ہی جائے گا۔ ، ہلال کی تصویر ہماری سکرین پر آ جاتی ہے اور اب پہلے جیسی چھتیں رہی بھی کہاں۔ بڑے شہر کنکریٹ کا جنگل بن گئے۔ درمیانے بھی اور چھوٹے شہر اور قصبے بھی جدید ٹیکنالوجی کی گرفت میں آ گئے۔ عید کی صبح اخبارات سرورق کے ساتھ آتے۔ اب اخبارات میں سرورق کا تصور ہی ختم ہو گیا۔ میگزین کے صفحات پر عید ایڈیشن کی چھوٹی سی پیشانی کے بعد مضامین چھپے ہوتے ہیں جنہیں کوئی نہیں پڑھتا، تصویریں ہوتی ہیں، بھڑک دار ہونے کے باوجود کوئی نہیں دیکھتا لیکن تب پورے صفحے کا سرورق ہوتا تھا۔ کھجور کے درخت، صحرا کا منظر، کونے میں ہلال عید، ایک طرف کوئی شعر، بالعموم یہ کہ "غرہ شوال اے نور نگاہ اور ذمہ دار یا پھر عید آزاداں شکوہ ملک و دین" یہ عید آزادی کیا ہوتی ہے، ہم پاکستانی کیا جانیں۔ ٭٭٭٭٭عید کی جوتیاریاں ہوتی تھیں، سادہ اور کم تکلف والی ہونے کے باوجود ان میں ہزاروں بنائو تھے۔ چاند رات چاند نظر آنے کے بعد شروع ہوتی اور صبح ہی کو ختم ہوتی۔ ایک انوکھی بات، سارا شہر ایک ہی عید گاہ میں نماز پڑھتا۔ کیا شیعہ، کیا سنی، کیا بریلوی، کیا دیوبندی اور کیا اہلحدیث۔ شہر میں چند گھرانے قادیانی تھے، وہ بھی عید گاہ میں ساتھ ہوتے۔ ابھی قادیانی غیر مسلم قرار نہیں دیئے گئے تھے لیکن تمام مسلمان انہیں غیر مسلم ہی سمجھتے تھے۔ انہیں عید گاہ میں نظرانداز کر دیتے تھے۔ یہ سندھ کے شہر مورد کا ذکر ہے۔ چند برس بعد پنجاب نقل مکانی ہوئی تو پتہ چلا، ہر فرقے کی الگ عید گاہ ہے۔ اس حقیقت سے مانوس ہوتے ہوئے کئی برس لگ گئے۔ ٭٭٭٭٭ایک نشانی اس دور کی اب مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے، یہ عید کارڈ کی روایت تھی۔ عید سے کئی دن پہلے عید کارڈ آنا شروع ہوتے، بعض تو ہفتہ بھر پہلے ہی آ جاتے اور چند ایک عید کے بعد بھی ملتے۔ میں سارے کارڈ اکٹھے کر لیتا اور عید کی سہ پہر ان سب کو کھول کر دیکھتا اور درجہ بندی کرتا۔ عید کارڈ خریدنے کی دوڑ بھی لگتی اور انہیں کس چائو سے حوالہ ڈاک کیا جاتا، اس کی نقشہ کشی آسان نہیں۔ اب وہ روایت رہی نہ چائو نہ کسی کو معلوم کرنے کی ضرورت کہ کس درجے کا کیف اس کیفیت میں تھا۔ یوں "ڈاکیا" عید کی تقریبات کا ایک ہیرو بن جاتا۔ زمانہ سائنسی ہو گیا، موبائل فون اور انٹرنیٹ نے "ورچوئل ریالٹی" والے عید کارڈ تیار کر لیے اور اب وہ بھی باقی نہیں رہے، بس عید مبارک کے لفظ لکھ کر یا کسی ڈیزائن میں ڈھال کر Sendکر دو۔ اب میل ملاپ سمٹ کر ایک کلک Sendبن کر رہ گیا ہے۔ اور ڈاکیے کی بھی وہ اہمیت نہیں رہی۔ کبوتر سے ڈاکیا اور ڈاکیے سے ایل ای ڈی سکرین کا سفر طے کرتے ہوئے ہماری نسل نے کرب کا ایک صحرا عبور کیا۔ کتنی روایتیں حکایتوں میں بدل گئیں۔ رہے نام اللہ گا……