Masnooi Aor Asli Shahi Mahal
Abdullah Tariq Sohail100
رات ایک ٹی وی پروگرام میں خاں صاحب کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنی ساری ٹیم ہی بدل ڈالیں کہ ساری ٹیم ہی نالائق ہے۔ لیکن ایسے مطالبات کرنے والے ایک بات نہیں جانتے یا اسے نظر انداز کر رہے ہیں اور وہ یہ کہ یہ سارے خود ان کا حسن انتخاب ہیں اور سارے جس "وژن" کو آگے بڑھا رہے ہیں، وہ خاں صاحب ہی کا وژن ہے۔ کوئی چاہے تو تردید کر دے اور بتا دے کہ نہیں، وژن کسی اور کا ہے، نام البتہ خاں صاحب کا ہے اور یہ کہ انتخاب بھی خاں صاحب کا نہیں، کسی اور کاہے؟ ٭٭٭٭٭وزیر اعظم نے ہائوسنگ سکیم کی تختی کی نقاب کشائی کر دی۔ فی الحال ان کے اعلان کردہ منصوبے کے 2.8فیصد گھروں کی تعمیر کا اعلان ہوا ہے۔ شکی المزاج ناقدین کو اس پر بھی شک ہے۔ کہتے ہیں خاں صاحب مکان تعمیر نہیں کریں گے۔ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہ ہے یہ بھی کہا گیا کہ شاید یہ مکانات سیاروں پر بنیں گے اور یہ کہ خاں صاحب محض اعلانات کرتے ہیں، کام انہوں نے ایک بھی نہیں کیا۔ بالکل غلط۔ خاں صاحب نے کتنے ہی کام کئے اور ایک سے بڑھ کر ایک ناقابل یقین۔ ایک ارب درختوں کو دیکھ لیجئے۔ کتنی کم مدت میں لگا ڈالے۔ یہی نہیں، ایک ارب درخت اگانے کے بعد انہیں ایک ارب سلیمانی ٹوپیاں پہنائی گئیں۔ پھر پختونخوا میں 360ڈیم بنائے اور پھر ان 360ڈیموں کے اوپر سلیمانی خیمے تان دیے گئے۔ اس لئے کہ دشمنوں کی بدنظری سے بچ سکیں۔ دشمنوں کو نظر آئیں گے تو ہی نظر لگے گی۔ چنانچہ ان شاندار کاموں کو بری نظر سے بچا لیا گیا۔ ایسا کرنا ضروری تھا جس کی دلیل یہ ہے کہ بی آر ٹی(پشاور میٹرو) کو سلیمانی کیپسول نہیں اوڑھایا گیا تو دیکھ لو، فی مربع فٹ کے حساب سے کیسی بری نظر لگی۔ چنانچہ یہ مکان بھی بنیں گے اور اس بار احتیاطاً مکان بعد میں بنائے جائیں گے، سلیمانی غلاف پہلے اوڑھائے جائیں گے تاکہ بد نظروں کی بدنظر نہ لگے۔ ٭٭٭٭٭خاں صاحب نے تختی کو بے غلاف کرتے ہوئے بہت سی اچھی باتیں کیں۔ ایک یہ کہ ایف بی آر میں رکاوٹیں ڈالنے والے عناصر موجود ہیں جو ٹیکس وصولی نہیں ہونے دے رہے۔ یہ بات انہوں نے ان رپورٹوں کے تناظر میں کی کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ٹیکس وصولی کی شرح بے مثال حد تک گر گئی ہے۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ہمیں یاد ہے سب ذرا ذرا کے مصداق وہ بیان ابھی بھولا نہیں جو خاں صاحب نے الیکشن سے پہلے بار بار دیا تھا کہ اوئے پاکستانیو، یاد رکھو میں حکومت میں آ کر اسی ایف بی آر کے ذریعے آٹھ ہزار ارب روپے اکٹھا کر کے دکھائوں گا کیونکہ سب خرابی اوپر ہوتی ہے، اوپر میں ہوں گا تو نیچے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن پھر ہوا یوں کہ جتنی وصولی اوپر کی خرابی کے باوجود ہوتی تھی، اس کا آدھا بھی وصول نہیں ہوا۔ خیر، مزید یاد آیا کہ تین مہینے ہوئے ہیں جب خاں صاحب نے نئی ایف بی آر بنانے کا اعلان کیا تھا، اس کا کیا بنا؟ ٭٭٭٭٭ایک باخبر صحافی نے لکھا ہے کہ گزشتہ مہینے دسیوں کروڑ روپے صرف کر کے وزیر اعظم ہائوس کی شاہانہ تزئین و آرائش کی گئی جس کے بعد وزیر اعظم ہائوس حقیقی معنوں میں شاہانہ محل بن گیا ہے۔ گویا نواز دور میں اسے شاہی محل کا جو خطاب دیا گیا تھا، وہ "مصنوعی" تھا؟ شاید ایسا ہی ہو۔ موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ سابق دور کی ہر شے مصنوعی تھی۔ چنانچہ بات کا خلاصہ پھر وہی نکلا کہ خاں صاحب نے وزیر اعظم ہائوس کا مصنوعی شاہی محل سے حقیقی شاہی محل بنا دیا ہے۔ ٭٭٭٭٭یہ اطلاعات بھی چل رہی ہیں کہ حقیقی شاہی محل میں چائے کے لئے دودھ کا ماہانہ خرچہ بھی ہزاروں میں ہے۔ نواز دور میں یہ خرچہ 31ہزار روپے ماہانہ تھا جسے کم کرنے کے لئے انہوں نے بھینس رکھ لی تھی۔ جن سے خرچہ 31ہزار سے بھی کم ہو گیا۔ خاں صاحب نے بچت کے لئے یہ بھینسیں بیچ ڈالیں اور خوب داد پائی۔ ٭٭٭٭٭پیمرا نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ٹی وی انٹرویوز پر پابندی لگا دی ہے۔ کہا ہے کہ وہ عدالتی مفرور ہیں۔ اس لئے اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ڈار صاحب کے انٹرویو تسلسل سے آنے لگے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ معزز حکومتی شخصیات کو "ہراساں " کر رہے تھے۔ مفرور کے ٹی وی انٹرویو نہ کرنے کا کوئی قانون ہے ہی نہیں۔ خود وزیر اعظم بعض کیسوں میں دو سال تک عدالتی مفرور رہے اور ان کے بلا ناغہ انٹرویو اور لائیو خطابات نشر ہوتے رہے۔ قبلہ کینیڈا والے مولانا بھی مفرور تھے، روز نشر ہوتے رہے۔ درد کمر والی سرکار بھی پانچ چھ برس سے دبئی مفرور ہے، لاتعداد انٹرویو نشر ہوئے۔ ایک تو وہی کہ وہ اعداد و شمار کے ذریعے حکومت کو "ہراساں " کر رہے تھے۔ دوسری بات ذرا اور قسم کی ہے۔ کہتے ہیں، بعض اوقات"نکی جئی ہاں " بعد میں وڈا سارا مسئلہ بن جاتی ہے۔ ڈار صاحب کے ساتھ بھی ملتا جلتا معاملہ ہے۔ ہاں نہیں، انہوں نے "نکی جئی ناں "کی تھی۔ کچھ اس طرح کی بات کی تھی کہ قومی فنڈ قوم پر ہی خرچ کرنا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭رمضان پیکیج کا انچارج شیخ رشید کو لگا دیا گیا ہے۔ وہی شیخ صاحب جو فرمایا کرتے ہیں کہ مہنگائی ہونے سے قیامت نہیں آ جاتی۔ رمضان پیکیج کے تحت سستی چیزیں خریدنے کے منتظر بیٹھے افراد بھی بے فکر رہیں، کوئی قیامت نہیں آئے گی۔