Misal Kifayat Shiari
Abdullah Tariq Sohail143
چیئرمین نیب کی آڈیو ویڈیو کلپس نشر ہونے کے بعد یوں لگا تھا کہ بہت طوفان مچے گا لیکن دو چار دن کی پریس کانفرنسوں، بیانات اور تجزیہ کاریوں کے بعد خاموشی چھا گئی ہے یہاں تک کہ خود انہیں بھی خاموشی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کہاں وہ دن کہ ہر آئے دن پریس کانفرنس کرتے تھے، اپوزیشن کو للکارتے تھے اور نہیں چھوڑوں گا کا طرح مصرع اپنے سروں میں الاپتے تھے اور کہاں یہ دن کہ اتنے دن ہو گئے۔ عوام کو ان کے غزل سرا ہونے کا انتظار ہے۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ اعتکاف بیٹھ گئے ہیں۔ یعنی عید کے بعد غزل سرائی کی توقع ہے۔ اس خاموشی کے دوران بہت سی وارداتیں ہو گئیں۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف شاید یہ سوچ کر ریفرنس دائر کر دیا ہے کہ وہ رہے تو اگلے الیکشن میں وہ چیف جسٹس ہوں گے اور "سلیکشن" کا مرحلہ، مطلب ری سلیکشن کا مرحلہ دشوار ہو جائے گا۔ یہ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے۔ لیکن 2025ء تو بہت دور ہے۔ نجومیوں کی اطلاع ہے کہ شاید کچھ ہی عرصہ بعد: عبہاریں تم کو ڈھونڈیں گی نہ جانے تم کہاں ہو گےمسلم لیگ نے اسے ججوں کی ٹارگٹ کلنگ قرار دیا ہے۔ شاید یہ بات قدرے درست ہے کہ ریفرنس ان صاحب نے بنایا جو ٹارگٹ کلروں کے"کامیاب" وکیل ہیں۔ اب سنا ہے کہ ٹارگٹ کلرز کے ان وکیل نے جو خیر سے پرویز مشرف کے بھی کہ"شاہ ٹارگٹ کلراں " ہیں، وکیل ہیں۔ ان کی کامیاب وکالت کی داد تو دینا ہی ہو گی کہ نہ صرف مشرف، محفوظ و مامون ہیں بلکہ 12مئی اور بلدیہ ٹائون کے ٹارگٹ کلر بھی۔ غیر محفوظ ہیں تو ساڑھے تین سو مرحومین کے اہل خانہ، جانے کب دھر اور پکڑ لئے جائیں۔ ایک اور گروپ ایسا ہے جس کا خیال ان دونوں قسم کے اصحاب سے مختلف ہے۔ وہ کہتا ہے، اب جیسی کرنی، ویسی کرنی کا وقت آ گیا۔ ٭٭٭٭٭پنجاب حکومت نے 38ترجمانوں کا تقرر کر دیا۔ ان میں وہ بہادر خاتون بھی شامل ہیں جس نے ایک ٹریفک کانسٹیبل عورت کی گردن دانتوں سے کاٹ کر چھلنی کر دی تھی۔ موصوفہ کسی کو اینٹ رسید کرنے کی کوشش میں تھیں کہ مذکورہ کانسٹیبل نے انہیں روکنا چاہا۔ یوں اپنے کئے کی موقع پر سزا پائی۔ جب کائونٹ ڈریکولا کے نام سے کئی فلمیں بن رہی تھیں، انہیں دنوں ایک فلم"کائونٹس ڈریکولا" کے نام سے بھی آئی تھی۔ یہ فلم والی بات ایسے ہی بے موقع اور بے وجہ در آئی، اس کا زیر نظر معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ فخر کی بات ہے دنیا کے کسی ملک نے کسی صوبے نے آج تک اتنے مشیر مقرر نہیں کئے لیکن اپوزیشن کو تو ہر بات پر تنقید کی عادت ہے۔ اس پر بھی تنقید کر رہی ہے۔ ایک صاحب نے طنز کیا۔ پنجاب میں 36ضلع ہیں، یہ اڑھتیس مشیر کیوں، یعنی دو زیادہ کیوں۔ اس نامعقول سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ گاڑی میں چار رم ہوتے ہیں، پھر ایک فالتو ٹائر گاڑی کے ساتھ کیوں بندھا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے، سٹپنی کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ دو فالتو ترجمان سٹپنی کی مد میں سمجھ لیں دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ ترجمان کچھ زیادہ ہوں گے لیکن اتنے بھی زیادہ نہیں۔ سب کو معلوم ہے، پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کتنے ہیں۔ تقسیم کیا جائے تو فی وزیر اعلیٰ 7ترجمان آتے ہیں۔ یعنی یہ ہوئے 35چنانچہ اس صورت میں سٹپنی ترجمانوں کی تعداد 3ہو جاتی ہے۔ خبر ہے کہ وفاقی وزیر زرتاج گل کی ہمشیرہ کو جو اٹھارہویں گریڈ کی ملازم ہیں، اسے ڈیپوٹیشن پر نیکٹا کا ڈائریکٹر لگا دیا گیا ہے۔ یہ وہی ترقی ہے جس کی رفتار وزیر اعظم نے"سپیڈ کی لائٹ" سے واضح کیا تھا۔ اپوزیشن اسے اقربا پروری کا نام دے رہی ہے حالانکہ یہ اقربا پروری بالکل نہیں یہ تو بندہ پروری ہے۔ زیر نظر معاملے میں اسے "بندی پروری" کہہ لیجیے۔ زرتاج گل کی سیاسی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ اس کے عوض یہ بندی پروری کچھ بھی نہیں۔ موصوفہ ہر روز نواز شریف کی کرپشن بے نقاب کرتی ہیں اور کیا چاہیے۔ حال ہی میں انہوں نے اقوام متحدہ کے کسی فورم پر پاکستان کی نمائندگی کی اور ایسا خطاب کیا کہ دوسرے مندوبین مبہوت ہو کر رہ گئے، بتایا گیا کہ ادارے کی تاریخ میں ایسی مبہوتیت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کیا فر فر تقریر کی، وزیرائیں ایسی بھی ہوتی ہیں۔ ٭٭٭٭٭وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں معمول کے علاوہ 77ملین روپے کا سپلیمنٹری بجٹ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے منظور کر لیا ہے۔ یعنی سابق اخراجات کے ساتھ مزید پونے آٹھ کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ مجموعی حکومتی اخراجات میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ ماضی میں ایسے اخراجات کو"اللے تللے" کہا جاتا تھا۔ تبدیلی کے بعد "انصاف اللغات" کی رو سے انہیں "کفایت شعاری" کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک ہزار ارب روپے کی "کفایت شعاری" تو بہت ہی خوب اور قابل داد ہے،۔ اوپر ایسا کفایت شعار بیٹھا ہو تو نیچے والوں کی تو کفایت شعاری کا تو پوچھیے ہی مت۔ آج ہی کی ایک اور خبر ہے کہ ایوان صدر کی تزئین و آرائش کے لئے ڈیڑھ کروڑ کا ابتدائی ٹینڈر جاری کیا گیا ہے۔ یہ ابتدائی ہے۔ بعدازاں معاملہ پشاور میٹرو یعنی بی آر ٹی کی شاہراہ پر چل نکلے تو کچھ تعجب نہیں۔