Trump Ka Dawa
Abdullah Tariq Sohail137
کیکڑا ون کے معاملے میں ایک معمہ کئی دن سے لاینحل پڑا ہے۔ یہاں اس بات پر کوئی بحث نہیں کہ کھدائی سے کچھ کیوں نہیں نکلا۔ وہ تو تقدیری امر ہے ملک کا ستارہ اس کی کرنسی کی طرح گردش میں ہے۔ گھاٹے کا ایک لامتناہی سفر ہے جو 2014ء میں لانچ کئے جانے والے ایڈوانچر کے منطقی تقاضوں کو پورا کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ یہاں اور سوال ہے اور وہی سوال معمہ بنا ہوا ہے۔ جس روز کھدائی کا عمل بند کیا گیا اسی سہ پہر وزیر اعظم کو رپورٹ دے دی گئی تھی کہ کچھ نہیں ملا۔ سات بجے کے قریب نائن ٹو ٹی وی نے خبر بریک کر دی۔ کچھ ہی دیر بعد دوسرے چینلز سے بھی یہ خبر مل گئی اور ساڑھے سات بجے تک ہر ایک جان چکا تھا کہ کیکڑا ون میں کچھ نہیں ہے اور وزیر اعظم باقی سب سے پہلے کئی گھنٹے پہلے جان چکے تھے۔ پھر انہوں نے آٹھ بجے خطاب کیا اور اعلان کیا کہ ہفتے بعد امید ہے 50سال کی ضرورت پوری کرنیوالی گیس مل جائے گی انہوں نے سب سے شکرانے کے دو پیشگی نفل پڑھنے کی فرمائش بھی کر دی۔ یہ معمہ ہے انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ بھی زبان کی پھسلن تھی؟ یا پرچی ایک دن پہلے کی لکھی ہوئی تھی جو پڑھ ڈالی؟ یا پھر کوئی روحانی ٹوٹکا تھا۔ معمہ کشا حضرات اس معمے کی کشائی بھی کر ڈالیں۔ ٭٭٭٭٭شرح سود حد سے زیادہ بڑھ گئی۔ تاجر برادری کا ردعمل آیا ہے کہ ڈیڑھ فیصد اضافے کے بعد صنعتیں بندھ ہو جائیں گی۔ ملکی پیداوار مزید کم ہو گی۔ بے روزگاری بڑھے گی۔ ایک رپورٹ میں تصریح ہے کہ اب کارخانے نجی بنکوں سے قرضے لینے کے قابل نہیں رہیں گے۔ پیداوارنہیں ہو گی تو برآمد بھی نہیں ہوں گی اور بے روزگاری کا تو خیر کیا، وہ تو ویسے بھی بڑھ رہی ہے۔ چلیے ایسے بھی سہی۔ کاروباری برادری کو غالباً ایجنڈا بھول گیا۔ مختصر سا شش نکاتی ایجنڈا ہے اسے یاد رکھا جائے تو اب تک کے اقدامات کی سمجھ بھی آ جائے گی۔ اور آئندہ ہونے والے اقدامات کا علم بھی ہوجائے گا ایجنڈا یہ ہے 1۔ کاروبار اور مواقع روزگارکا خاتمہ۔ 2۔ ملک میں سرمایہ کاری کے امکانات کا گربہ پوری طرح کشتن کرنا۔ 3۔ مڈل کلاس کا خاتمہ تاکہ اشرافیہ کی حکمرانی کو لاحق اندیشہ ہائے دوردراز سے مستقل نجات مل سکے۔ 4۔ ملک کی معیشت اور معاشرت کو مکمل طور پر امریکہ کی سپرداری میں دے دینا(یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آئی ایم ایف امریکہ کا بازوئے گرزبردار ہے(5۔ چین پر انحصار بڑھانے کی نامسعود روش جو چور ڈاکوئوں کی حکومت نے اختیار کی تھی۔ اس کا خاتمہ اور تلافی مافات۔ 6۔ آئین میں کچھ حساس ترامیم جو ناممکن ہوئیں تو سرے سے نظام ہی کا خاتمہ۔ یہ شش نکات ہیں (اسے ہیکسا گرامHexagram سے مشابہت دینے کی ضرورت نہیں )٭٭٭٭٭چیئرمین نیب کی صفائی دینے کے لئے وزیر اعظم کے ترجمان شہزاد اکبر سرگرم ہو گئے ہیں۔ اکیلے وہی نہیں، حکمران جماعت کے اور بھی بہت سرہائے گرم سرگرم ہیں لیکن شہزاد صاحب تو بانداز فریاد سامنے آئے ہیں۔ فریاد کی ہے کہ چیئرمین نیب کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہونی تو ہو کر رہتی ہے اور ہو کر رہے گی(ہاں اگر صاحب دو تین ہزار کالے بکرے صدقہ کریں تو شاید ٹل جائے) ادھر اپوزیشن کے حلقے چیئرمین صاحب کے اس دعوے پر چین بچیں ہیں کہ انہیں صدر مملکت بنانے کی پیشکش کی گئی تھی۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسی پیشکش نہ کسی نے کی نہ کرنے کا کوئی تک ہے پھر یہ دعویٰ کیوں۔ اپوزیشن کی سخت فہمی مشکوک ہے جناب، یہ دعویٰ برائے دعویٰ نہیں "حسن طلب" بھی تو ہو سکتا ہے آپ رمز سمجھے نہیں صاحب، آپ نے موقع کھو دیا صاحب اب بھگتیے گرفتاریوں کا نیا شیڈول بنا چاہتا ہے۔ ٭٭٭٭٭امریکی صدر ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ ایران نے محاذ آرائی کی کوشش کی تو وہ اسے مکمل طور پر تباہ کر دیں گے۔ ٹرمپ بادشاہ ہیں جو چاہے دعویٰ کر سکتے ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں۔ عراق اور افغانستان کو بلا شبہ امریکہ نے برباد کر دیا یمن ان دونوں ملکوں کا ڈھانچہ ایک مختصر سی مثلث میں تھا۔ طالبان کا افغانستان عملاً کابل اور قندھار تک محدود تھا۔ صدام کا عراق بغداد، تکریت اور بصرے کی مختصر سی مثلت کا نام تھا۔ باقی سارا ملک بنجر صحرا تھا۔ ایران کا جغرافیہ بہت بڑا ہے تہران سے زاہدان جتنا دور ہے۔ اتنا ہی اس سے زیادہ مشہد سے تبریز اور ایران کا سٹرکچر کہاں کہاں پھیلا ہے۔ امریکہ کو اندازہ ہے۔ امریکہ اسے بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن تباہ نہیں کر سکتا۔ برطانیہ کا بیان بہت اہم ہے کہا ہے۔ امریکہ ایران پر حملہ کر سکتا ہے اس نے یہ بات کسی اہم ٹپ یا انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہی کہی ہو گی۔ ادھر امریکہ کچھ ہزار ایلیٹ فوجی بھی علاقے میں پہنچا دیے ہیں ایران نے اپنے سب سے زیادہ اہم ایس میزائل خلیج کے کنارے پہنچا دیے ہیں۔ ان میزائلوں سے آبنائے ہرمز یا خلیج فارس میں چلنے والی بحری ٹریفک پر حملے ہوئے تو امریکہ سمندری جھڑپ سے آگے بڑھ کر ایران کے زمینی میزائل اڈوں پر حملے کرے گا۔ جنگ کا دائرہ پھر پھیل کر امریکہ تک محیط نہیں ہو گا لیکن سعودی عرب اور امارات کو خطرات بڑھ جائیں گے۔ ایرانی میزائل ایک ہتھیار ہیں تو ڈرون طیارے دوسرا جو سرزمین ایران ہی سے نہیں، حوثیوں کے زیر قبضہ یمن سے بھی چلیں گے۔ جنگ ہوئی تو (جس کا امکان پہلے کے مقابلے میں قدرے بڑھ گیا ہے) امریکہ کا ہدف "رجیم چینج" ہو گا۔ انتقامی ردعمل حوثیوں کے علاوہ لبنان کی حزب اللہ بھی دے گی اور خود عراق کے اندر بھی تباہ کن واقعات ہوں گے اسی لئے عراقی شیعوں کے ایک بڑے دھڑے کے لیڈر مقتدی صدر نہ صرف جنگ رکوانے کے لئے سرگرم ہیں بلکہ انہوں نے ایران امریکہ معاملہ سے عراق کو الگ رکھنے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے اور کچھ مسئلے تو پاکستان میں بھی آئیں گے۔