Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Muashi Mushkilat Ka Aarzi Hal

Muashi Mushkilat Ka Aarzi Hal

پاکستان کے عالمی مالیاتی فنڈ ز(آئی ایم ایف) سے قرض لینے کیلیے مذاکرات فی الحال کامیاب نہیں ہوسکے۔ فنڈز سخت شرائط منوانا چاہتا ہے جواسلام آبادماننے کیلیے تیار نہیں۔ اس مرتبہ فنڈز کا روّیہ غیر معمولی طور پر سخت اور غیر لچکدار ہے۔ ایسے وقت میں جب پاکستانی عوام شدید مہنگائی کی زَد میں ہیں آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ہماری حکومت بجلی کے نرخ مزید بڑھا دے، روپے کی قدرمزید گرائے اور نئے ٹیکس نافذ کرے۔ حکومت جزوی طور پر ان ہدایات کو ماننے کیلیے تیار ہے لیکن تمام نکات پر عمل کرنے کیلیے راضی نہیں۔ ایک سال میں کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں بیس سے پچیس فیصد بڑھ چکی ہیں جبکہ تین برسوں میں دوگنا ہوگئی ہیں۔

اس عرصہ میں زمینداروں کی آمدن میں توخاصا اضافہ ہوا ہے لیکن تنخواہ دار طبقہ کی آمدن اسی تناسب سے نہیں بڑھی بلکہ کورونا وبا کے باعث بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ حالات میں حکومت آئی ایم ایف کے نسخہ پر عمل کرے گی تو شہروں میں احتجاج شروع ہوسکتا ہے۔ تاجر برادری پہلے ہی اسلام آباد میں ٹیکس وصولی کے نئے نظام کے خلاف دھرنا دے رہی ہے۔ بجلی مزید مہنگی ہونے سے صنعتی ترقی متاثر ہوگی۔ نئے ٹیکس لگائے گئے تو ملک بھر میں تاجروں کی ہڑتالیں بھی شروع ہوجائیں گی۔ کوئی منتخب، جمہوری حکومت ایسی صورتحال کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ عوامی احتجاج کو طاقت سے نہیں کچل سکتی۔

تاہم، عالمی مالیاتی فنڈ ز(آئی ایم ایف) کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ عالمی سرمایہ داری نظام کامرکزی ادارہ ہے جو دنیا بھرکے ممالک کی معیشتوں کی نگرانی کرتا اور انہیں سند جاری کرتا ہے کہ وہ صحت مند ہیں یا بیمار۔ اسکے سر ٹیفکیٹ کی بنیاد پر دیگر عالمی مالیاتی ادارے اوربین الاقوامی بینک، سرمایہ کار کسی ملک کے ساتھ معاملات طے کرتے ہیں۔ عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق کسی ملک کو ترقیاتی منصوبوں کیلیے رقم جاری کرتے ہیں اور عالمی سرمایہ کار اسٹاک ایکسچینج اور نجی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ہماری معیشت عالمی معیشت سے جُڑی ہوئی ہے۔ اس سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتی۔ اگر پاکستان کی معاشی بنیاد مضبوط ہوتی تو ہم آئی ایم ایف سے آزاد ہو کر فیصلے کرسکتے تھے۔ لیکن ہماری زراعت اور صنعت ترقی یافتہ نہیں۔ کئی دہائیوں کی پالییسیوں اور اعمال کا نتیجہ ہے کہ ہم صنعتی طور پر پسماندہ ملک ہیں۔ بیرونی دنیا کو کم چیزیں فروخت کرتے اور زیادہ خریدتے ہیں۔ تجارت خسارہ میں ہے۔

حکومت کی آمدن اسکے اخراجات سے بہت کم ہے کیونکہ مالدار طبقے پورا ٹیکس نہیں دیتے۔ حکومت ٹیکس وصول کرنے کی کوشش کرے تو ملک میں ہڑتالیں اور ہنگامے ہوجاتے ہیں۔ کم سے کم پچاس برسوں سے ہم محتاجی کی زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ بچتوں کی شرح بہت کم ہے جومستقبل کی ترقی کیلیے استعمال کی جاسکیں۔ جن لوگوں کے پاس فاضل سرمایہ ہے وہ اسے زیادہ تر پراپرٹی، رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں لگاتے رہے۔ صنعت و زراعت کے پیداواری شعبوں میں نہیں۔ کوئی ملک صرف رئیل اسٹیٹ کی بنیاد پر پائیدار ترقی نہیں کرسکتا۔ ہماری قوم کو قرضوں کا نشہ لگ چکا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے تمام ترقیاتی منصوبے ملکی اور غیر ملکی قرضوں سے مکمل کیے جاتے ہیں۔ حکومت کی آمدن اتنی کم ہے کہ گزشتہ قرضوں اورانکے سود کی ادائیگی کرنے کے بعد سرکاری ملازموں کو تنخواہیں دینے کیلیے رقم نہیں بچتی۔ وہ بھی اُدھار لیکر ادا کی جاتی ہیں۔ غریب، مستحق لوگوں کی امداد کیلیے احساس کیش پروگرام عالمی اداروں سے قرض لیکر چلایا جارہا ہے۔ اسی لیے ہر حکومت کو، خواہ کسی پارٹی کی ہو، آئی ایم ایف اور سعودی عرب کے پاس کشکول لیکر جانا پڑتا ہے۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا نظام دولتمند طبقہ کی آہنی گرفت میں ہے۔ پاکستان کی تقریباً بیس فیصد آبادی دولتمند اور اعلیٰ متوسط طبقہ پر مشتمل ہے۔ حکومتی پالیسیاں بیس فیصد آبادی کے مفاد میں تشکیل دی جاتی ہیں، غریب کے مفاد کو مدنظر رکھ کر نہیں۔ مثلاًاگر لگژری اشیا کی درآمد کم کردی جائے تو ملک کا تجارتی خسارہ کم ہوسکتا ہے اور ہمیں آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر ماتھا نہ رگڑنا پڑے۔ لیکن ہمارے خوشحال طبقات بڑی بڑی درآمدی گاڑیوں، اسمارٹ فون، چاکلیٹ، میک اپ کے سامان، اپنے کتوں، بلیوں کے کھانوں اور ایسی دیگر اشیا کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اسلیے انکی درآمد پر پابندی نہیں لگائی جاتی۔

ہماری معاشی مشکلات کا پائیدار حل تو یہی ہے کہ ملک میں زراعت اور صنعت میں زبردست ترقی ہو۔ آج اگر سمت درست کی جائے اور صحیح پالیسیوں پر عمل کیا جائے تو پندرہ بیس برسوں میں اسکے اچھے نتائج ہمارے سامنے آئیں گے۔ کسی کے پاس ایسا جادو نہیں جو چند سال میں اس صورتحال کو بہتر بنادے۔ سعودی عرب سے مالی امداد (نرم قرض) کی حالیہ بحالی سے حکومت اور عوام کو کچھ ریلیف ملے گا۔ لیکن شائد یہ دوا کافی نہ ہو۔ معاشی مشکلات سے نکلنے کا ایک عارضی حل یہ بھی ہے کہ ماضی کی طرح امریکہ سے رجوع کیا جائے۔ پاکستان حکومت امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرے کیونکہ امریکہ آئی ایم ایف کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جب امریکی افواج نے افغانستان سے انخلا کیا تو ہماری قوم نے سپر پاور کاخوب مذاق اڑایا۔ ہمیں معاشی گرداب میں پھنسا دیکھ کراب امریکی لطف اندوز ہورہے ہیں۔

امریکی حکمران چاہیں تو آئی ایم ایف نرم شرائط پرہمیں قرض دے سکتا ہے۔ امریکی اشارہ پر پاکستان ایف اے ٹی ایف کے چنگل سے بھی نکل سکتا ہے جس سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوگی۔ تاہم واشنگٹن اور اسلام آبادکے تعلقات میں بہتری کا تعلق خارجہ اور دفاعی امور سے ہے۔ اگر پاکستان عسکری مقاصد کیلیے اپنی فضائی حدود امریکی فوج کو استعمال کرنے کی اجازت دے تو باہمی تعلقات میں بہتری پیدا ہوسکتی ہے لیکن یہ آسان فیصلہ نہیں ہوگا۔ ہمارے امریکہ سے تعلقات بہتر نہیں ہوتے یا وہ نرمی کا مظاہرہ نہیں کرتا تو آئی ایم ایف ہمارے لیے دردِ سر بنا رہے گا۔