Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Taiwan Ka Flash Point

Taiwan Ka Flash Point

جوں جوں امریکہ چین کے نواح میں جزائر پرمشتمل ملک تائیوان کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ سے لیس کرتا جارہا ہے، چین بھی اسکے خلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ا کتوبر کے شروع میں چین نے اپنا قومی دن منایاتو اس کے جدید جنگی طیاروں نے تائیوان کی فضائی حدود کے نزدیک بڑے پیمانے پر چکّر لگائے۔ چین کے اواکس نماطیارے(کے ایل 500) بھی تائیوان کے قریب اُڑتے رہے جونگرانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جب چینی جہاز خاصے نزدیک آئے تو تائیوان نے ممکنہ حملہ کے پیش ِنظر اپنے جنگی جہازوں کو حرکت دی۔ تائیوان کے وزیرِ دفاع چُوکَوچینگ کا کہناتھا کہ گزشتہ چالیس برسوں میں یہ بدترین صورتحال تھی۔ بہرحال کوئی تصادم نہیں ہوا۔ فوری طور پر کسی جنگ کا امکان بھی نہیں لیکن یہ خدشہ ضرور ہے کہ کہیں غلطی سے دونوں ملکوں کی فوج میں حادثاتی طور پرٹکراؤ نہ ہوجائے۔ تائیوان دنیا کا ایک نقطۂ اشتعال، فلیش پوائنٹ بن چکا ہے جیسے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کا علاقہ۔ چین اِسے اپنا باغی صوبہ سمجھتا ہے اور اسکا اپنے ساتھ الحاق چاہتا ہے جبکہ تائیوان اپنے آپکو ایک آزاد اور خودمختار ملک قرار دیتا ہے۔ چین کو زک پہنچانے کیلیے امریکہ تائیوان کو ایک مہرہ کے طور پر استعمال کررہا ہے۔

تائیوان بحرالکاہل میں واقع جزائر کا مجموعہ ہے جو چین کی سرحد سے پونے دو سو کلومیٹر فاصلہ پر واقع ہیں۔ اسکے اور چین کے درمیان سمندر کو آبنائے تائیوان کہا جاتا ہے۔ 1949 میں چینی کمیونسٹ پارٹی ماؤ زے تنگ کی قیادت میں خانہ جنگی میں فتحیاب ہوئی اور اس نے پورے چین پر حکومت قائم کی تو اسکے مخالفین تائیوان میں جمع ہوگئے تھے اور انہوں نے، ری پبلک آف چائنہ، کے نام سے اپنی آزاد ریاست قائم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ تائیوان کو ہمیشہ سے امریکہ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ امداد زیادہ ہوگئی ہے۔ جب سے امریکہ نے اندازہ لگایا کہ چین کی معاشی اور فوجی طاقت بہت بڑھ گئی ہے، اُس نے آبنائے تائیوان میں اشتعال انگیز کارروائیاں شروع کردیں۔ وہ دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ اس علاقہ کی بحری تجارت پر اب بھی اسکی تھانیداری قائم ہے۔ آبنائے تائیوان پر چین کی حاکمیت نہیں ہے بلکہ امریکہ اپنی مرضی سے اس راستے کو استعمال کرسکتا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں سے واشنگٹن نے آبنائے تائیوان میں اپنے جنگی بحری جہازوں اور بحری جنگی کشتیوں کی آمد و رفت میں اضافہ کردیا ہے۔ صرف پچھلے سال امریکی جنگی بحری جہاز تیرہ مرتبہ آبنائے تائیوان سے گزرے۔ گزشتہ دنوں فرانس کے سنیٹرز کے ایک گروپ نے بھی تائیوان کا سرکاری دورہ کیا جس پر چین نے احتجاج کیا۔ مقصدتھا کہ چین کو پیغام دیا جائے کہ مغربی طاقتیں تائیوان کے ساتھ ہیں۔ حال ہی میں اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا کہ دو درجن امریکی اسپیشل آپریشن کے افسران ایک سال سے تائیوان میں موجود ہیں اور اسکی افواج کو تربیت دے رہے ہیں۔ امریکہ خفیہ طور پر تائیوان کی فوج کو ہمیشہ سے تربیت دیتا رہا ہے لیکن وہ اسے ظاہر نہیں کرتا تھا لیکن اب وہ جان بوجھ کر یہ باتیں اَفشا کررہا ہے تاکہ چین کو مشتعل کیا جائے۔

چین کیلئے تائیوان کی اہمیت تو ہے لیکن یہ اسکے لیے ہنگامی یا فوری نوعیت کامعاملہ نہیں ہے۔ چینی صدر ژی جن پنگ چینی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دنوں چینی انقلاب کی ایک سو دسویں سالگرہ کے موقع پر کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس سے خطاب کیا اور کہا کہ بیجنگ چاہتا ہے کہ تائیوان پُر امن طریقے سے چین میں شامل ہوجائے کیونکہ اِسی میں چینی قوم کا مفاد ہے اور یہ کہ چین کے دونوں حصّوں کا ادغام ضرور ہوکر رہے گا۔ چینی صدر نے پُرامن ادغام کی بات کی لیکن انکا لہجہ قدرے دھمکی آمیز تھا۔ اُنکا کہنا تھا کہ یہ اتحاد ایک تاریخی ذمہ داری ہے جسے لازمی طور پر پورا کیا جائے گا۔ صدر ژی جن پنگ نے کہا کہ تائیوان کے علیحدگی پسند چین کے ایک ہوجانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس سے پہلے وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر تائیوان نے باقاعدہ طور پر الگ ملک ہونے کا اعلان کیا تو چین اسکے خلاف فوجی طاقت استعمال کرے گا۔ دوسری طرف، تائیوان کی خاتون صدرسائی اِنگ وِن کا موقف ہے کہ انکے ملک کو اعلان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی خود مختار ملک ہے۔ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی ہمیں وہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا جو چین نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ تائیوان کے وزیر دفاع نے پیشین گوئی کی ہے کہ چین اگلے چار سال تک تائیوان پر حملہ کرسکتا ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ انکا ملک اپنا بھرپور دفاع کرے گا۔

چینی صدر ژی جن پنگ نے اپنی حالیہ تقریر میں تائیوان کے معاملہ میں مداخلت کرنے پر بیرونی طاقتوں کوانکا نام لیے بغیر متنبہ کیا۔ ظاہر ہے انکا اشارہ امریکہ کی طرف تھا۔ انہوں نے کہا کہ تائیوان کا معاملہ چین کا خالصتاً اندرونی معاملہ ہے۔ در حقیقت، تائیوان کے معاملہ پر امریکہ کی پالیسی دوغلے پن پر مبنی ہے۔ ایک طرف تو سفارتی سطح پر اس نے تائیوان کو خود مختار ملک تسلیم نہیں کیا بلکہ وہ ایک متحد چین، کے اصول کی حمایت کرتا ہے لیکن دوسری طرف، تائیوان کو زیادہ سے زیادہ جدید ترین فوجی اسلحہ مہیا کررہا ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ چین اتنا طاقتور ہوچکا ہے کہ اب وہ اسکی جگہ ایشیا کی قیادت سنبھالنا چاہتا ہے۔ گزشتہ برس چین کا سالانہ فوجی بجٹ پونے تین سو ارب ڈالرتک پہنچ گیا تھا۔ خطّہ میں چین کو محدود کرنے کیلیے امریکہ تائیوان کوایک غیر اعلانیہ اڈّے کے طور استعمال کررہا ہے۔ امریکہ کی حکمت عملی یہ ہے کہ تائیوان کو عسکری طور پر اتنا مسلح کردیا جائے کہ چین اگر حملہ کرے تو اُسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑے۔ تاہم، چین اسکے بارے میں اُصولی موقف پر قائم رہنے اور تحمل کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ جب تک امریکہ آبنائے تائیوان میں کوئی بڑی شرارت نہیں کرتا اور چین کے کلیدی مفادات کو نقصان نہیں پہنچاتا، اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ بیجنگ تائیوان پر حملہ کرے گا۔