Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. 15 Se 25 May

15 Se 25 May

اپریل کے تیسرے ہفتے میں وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو بتایاتھا کہ 15 سے 25 مئی کورونا کے حوالے سے خطرناک ترین دن ہو سکتے ہیں جس کے لیے ہمیں بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ میں بہت سے لوگوں سے پوچھتا رہا کہ تین چار ہفتے پہلے ان تاریخوں کا تعین کس بنیاد پر کیا گیا ہے۔ کون سی رپورٹ کن اعداد وشمار کی بنیاد پر یہ پروجیکشن دکھا رہی ہے کہ 15سے 25 مئی پاکستان میں خطرناک ترین دن ہوں گے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد سے میں نے استفسار کیا تو انہوں نے جواب دی کہ وزیر اعظم نے کہا ہے تو ضرور ان کے پاس کچھ اعدادوشمار ہوں گے مگر میں نہیں جانتی۔ خیر جوں جوں 15 مئی قریب آ رہی تھی مجھ سمیت بہت سے لوگ ڈرے ہوئے تھے کہ نہ جانے کیا ہو گا۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت سے خصوصی اقدامات کے اٹھائے جانے کی بھی توقع کر رہے تھے تاکہ ان منحوس دنوں میں آنے والی بلا کو خطرناک ہونے سے روکا جا سکے۔ لیکن ہوا یہ کہ دو دن پہلے وزیر اعظم دوبارہ ٹیلیویژن پر نمودار ہوئے اور 15 مئی سے ٹھیک چھ دن پہلے یعنی آج سے لاک ڈائون ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب کچھ سمجھ نہیں آ رہا یہ ہو کیا رہا ہے، لاک ڈائون کھولنے کے لیے خطرناک ترین دنوں کا انتخاب کیوں کیا گیاہے۔

ایک اور اعلان بھی کیا گیا ہے۔ نویں سے لیکر بارھویں جماعت تک کے پرچے منسوخ کر دیے گئے ہیں، پچھلے سال کی کارکردگی کے مطابق اگلے سال کے گریڈز جاری کر دیے جائیں گے۔ اس اعلان کے بعد طلبہ و طالبا ت، ان کے والدین اور اساتذہ کے ذہنوں میں بہت سے سوالات ہیں جن کے تفصیلی جوابات وزرائے تعلیم کی جانب سے آ جانے چاہیں۔ والدین اور اساتذہ جو چیدہ چیدہ سوال پوچھ رہے ہیں وہ یہ ہیں :دسویں اور بارھویں جماعت کے طلبہ کے گریڈز کا تعین تو نویں اور گیارھویں جماعت کے نتائج کے مطابق ہو جائے گا مگرنویں اور گیارھویں جماعت کے طلبہ کے گریڈز کا تعین کیسے ہو گا؟

کیا نویں اور گیارھویں جماعت کے طلبہ اگلے سال دونوں سالوں کے اکٹھے امتحانات دیں گے جیسے ماضی میں ہوا کرتا تھا؟ دسویں اور بارھویں جماعت کے وہ طلبہ جو اپنے نویں یا گیارھویں جماعت کے ایک یا دو مضامین میں ناکام رہے تھے ان کے نتائج کا تعین کیسے ہو گا؟

بارھویں جماعت کے وہ طلبہ جن کے چند نمبر کم رہ جانے کے باعث انجینئرنگ یا میڈیکل میں داخلہ نہ ہوپایا تھا اور انہوں نے اس سال ریپیٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیا وہ اپنا ایک سال ضائع تصور کریں، پرانے نتائج پر ہی اکتفا کر کے صبر شکر کریں اور میڈیکل میں داخلہ لینے کا خواب چھوڑ دیں؟ یا پھر مزید ایک سال اس کا انتظار کریں؟ اگر کورونا وبا کے خطرے کے پیش نظر امتحانات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکا تو انٹری ٹیسٹ کا انعقاد کیسے ہو گا جس کے لیے آجکل فیس جمع کی جا رہی ہے۔

یہ اور ان جیسے کئی سوالات ہیں جن کے جوابات طلبہ و طالبات، ان کے والدین اور اساتذہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذمہ داران نے ابھی مکمل حکمت عملی بنائی ہی نہیں اور محض ایک خیال کو عوام تک منتقل کر کے بے چینی پھیلا دی ہے۔ ورنہ یہ اتنا بڑا، اہم اور سنجیدہ موضوع تھا کہ اس پر ہنگامی حالت میں مکمل حکمت عملی بنا نے کے بعد اعلان ہونا چاہییے تھا اورتفصیلی پریس بریفنگ ہونی چاہیے تھی کیونکہ تقریبا ہر گھر میں ایک یا ایک سے زیادہ بچے بے چینی میں مبتلا ہیں اور ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ رہے ہیں۔

دوسری جانب پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کا 15 جولائی تک اسکول بند رکھنے کے فیصلے کو مسترد کر دینے کا اعلان سمجھ سے بالا تر ہے۔ جب حکومت کی جانب سے انہیں اسی فیصد فیسیں وصول کرنے کی اجازت دی جا چکی ہے اور ان کے لیے اپنے اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرنا اور دوسرے اخراجات کا بندوبست کرنا مسئلہ نہیں رہا تو وہ کیوں اسکول بند رکھنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اسکول بند رہنے سے بیس فیصد تک تو ویسے بھی اسکولوں کے اخراجات میں کمی واقع ہو جاتی ہے پھر یہ شور کیوں کہ پرائیویٹ اسکول بند ہونے کے قریب ہیں اور حکومت کی جانب سے انہیں بیل آئوٹ پیکیج دیا جائے؟

حکومت کو اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے ان تمام مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی پیش نظر رہنا چایئے کہ پچھلے دو دن میں تین ہزار سے زائد نئے کورونا مریض سامنے آئے ہیں۔ یعنی کورونا مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ خطرہ ہرگز ٹلا نہیں ہے بلکہ نئے چیلنجز کے ساتھ اب بھی سر اٹھائے ہوئے ہے۔

15 سے 25مئی، 25 مئی سے 5 جون اور شاید 5جون سے 15 جون، حالات معمول پر آنے میں ابھی وقت لگے گا۔ آج سے لاک ڈائون میں تقریبا ختم ہونے جیسی نرمی ہو رہی ہے جبکہ کورونا وائرس ہمارے دائیں بائیں موجود ہے۔ وہ تمام خطرات جن کی بنا پر ڈیڑھ دو مہینے پہلے لاک ڈائون کا آغاز ہوا تھا، اب بھی موجود ہیں۔ اب بھی کورونا ویسے ہی پھیلتا ہے، اب بھی انسانی جان کے لیے وہ ویسے ہی خطرناک ہے، اب بھی اس وائرس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہو سکتی ہے، اب بھی اس کا کوئی علاج موجود نہیں۔ یادرہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان میں وسط جولائی تک د و لاکھ سے زیادہ کیسز کی پیشگوئی کر رکھی ہے اور یاد رہے کہ پاکستان کا نظام صحت اس بوجھ کو نہیں سہار سکتا۔