Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Afghanion Ki Pakistanio Ke Bare Mein Umoomi Raye

Afghanion Ki Pakistanio Ke Bare Mein Umoomi Raye

پاکستان میں افغانستان کے حوالے سے پوچھا جانے والا ایک عام سوال یہ ہے کہ وہاں پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں کیا رائے ہے۔ دیکھنے میں سوال سادہ ہے مگر اس کا جواب اتنا آسان نہیں۔

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے دیکھنا ہو گا کہ افغانستان کے اندر خود طالبان کی مقبولیت کا کیا عالم ہے۔ اس حوالے سے سوسائٹی تین حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو طالبان کے شدید حامی ہیں جن میں پشتونوں کی تعداد زیادہ ہے، تقریبا نوے فیصد یا اس سے بھی زائد۔ یعنی پشتون کمیونٹی میں طالبان کی کافی حمایت نظر آتی ہے۔ دوسرے وہ لوگ جو طالبان کے شدید مخالف ہیں۔ ان میں زیادہ تر دری اور فارسی بولنے والے، تاجک، ازبک اور دیگر کمیونیٹیز کے لوگ شامل ہیں۔ تیسرے، لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو طالبان کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر پرکھنا چاہتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ طالبان اگر انصاف کا نظام قائم کر پائے، امن مکمل طور پر بحال کر دیا گیا، کاروبار چلنے لگے اور افغانستان آگے کی جانب بڑھنے لگے تو طالبان اچھے ہیں ورنہ نہیں۔

اب آئیے پاکستان سے متعلق سوال پر۔ وہ تمام لوگ جو طالبان کے مخالف ہیں وہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کے بھی مخالف ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کو ایک میز پر بٹھانے، ان کے مذاکرات کامیاب کرانے، طالبان کو افغانستان میں حکومت سنبھالنے کے قابل بنانے اور انہیں افغانستان کا حکمران بنا دینے کا تمام تر ذمہ دار پاکستان ہے۔ لہذا وہ لوگ چونکہ طالبان کے حکومت میں آنے کے عمل ہی سے خوش نہیں لہذا وہ پاکستان کے کردار سے بھی خوش نہیں۔ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور یہ کہ افغانستان کو اس کے حال پہ چھوڑ دے تو بہتر ہو گا۔

دوسری قسم کے لوگ جو طالبان حکومت کے آجانے سے خوش ہیں، ان کے ہاں پاکستان کے کردار کو لے کر ایک تقسیم موجود ہے۔ طالبان کی وہ قیادت جو عالمی حالات، بین الاقوامی تعلقات اور حکومتی سطح کے معاملات کو سمجھتی ہے انہیں پاکستان کا افغانستان میں قیام امن کے لیے کردار خاصا مثبت دکھائی دیتا ہے، انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ پاکستان نے امریکہ اور طالبان کو ایک میز پر بٹھانے اور انہیں اقتدار تک آنے کا راستہ فراہم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ لہذا وہ پاکستان کے کردار کو شکر گزاری کے انداز میں دیکھتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف طالبان کارکنان ہیں جو حالات کو وسیع النظری سے نہیں دیکھ سکتے اور ابھی تک بیس سالہ پرانی کہانی پر پھنسے ہوئے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان پر حملے کے لیے امریکہ کی مدد کی، اسے اڈے فراہم کیے، ہمارے سر پر مسلط کیا، وغیرہ وغیرہ۔ انہی کارکنان کا دوسرا مسئلہ ٹی ٹی پی سے ہمدردی بھی ہے، اس معاملے پر بھی وہ پاکستان کے لیے شکوہ بھرے الفاظ زبان پر لیے بیٹھے رہتے ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے اس کا اظہار کر دیتے ہیں اس کے بارے میں تفصیل میں نے اپنے گذشتہ کالم میں پیش کر دی تھی۔

تیسری قسم کے لوگ جو ابھی طالبان کے بارے میں کوئی خاص موقف نہیں رکھتے اور انہیں ان کی کارکردگی سے جانچنا چاہتے ہیں، ان کے ہاں پاکستان کے لیے مجموعی طور پر تاثرات اچھے ہیں اور پاکستانیوں کے ساتھ رویہ خوشگوار ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو پاکستان میں رہ کر گئے ہیں، یہاں سے تعلیم حاصل کی، یہاں روزگار کے سلسلے میں موجود رہے یا پھر رشتے داروں سے ملنے کے لیے آتے جاتے رہے، وہ سب پاکستان کے ساتھ ایک تعلق کو محسوس کرتے ہوئے اپنی یادیں بڑے خوشگوار انداز میں شیئر کرتے ہیں اور پاکستانیوں کو ایسے خوش آمدید کہتے ہیں جیسے کوئی ان کے اپنے ہی وطن سے آیا ہو۔

افغانستان میں طالبان کی پسندیدگی اور نا پسندیدگی ایک اور پیمانے پر بھی پرکھی جا سکتی ہے۔ وہ لوگ جو امریکی ڈالرزکے آنے کے بعد پہلے کرزئی اور پھر اشرف غنی کی حکومت میں آسودہ حال تھے، بطریق احسن اپنے کاروبار کر رہے تھے، غیر ملکی این جی اوز کے ساتھ کام کرتے تھے یا پھر کسی بھی طریقے سے اچھے پیسے کما رہے تھے وہ سب حکومتی تبدیلی کے باعث مالی بحران سے پریشان ہیں، طالبان کی حکومت کو بے یقینی کے انداز میں دیکھ رہے ہیں اور اس تبدیلی سے خوش دکھائی نہیں دیتے۔

افغانستان میں روشن خیالی اور رجعت پسندی کے لحاظ سے بھی ایک واضح تفریق موجود ہے۔ وہ لوگ جو دوسرے ملکوں میں رہے ہیں یا آتے جاتے رہے ہیں، وہ نئی مذہبی حکومت اور اس کے ممکنہ قوانین سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں، موقع کی تلاش میں ہیں کہ کسی طرح باہر چلے جائیں۔ مگر وہ رجعت پسند طبقہ جو مذہبی اعتبار سے پختہ نظریات کا حامل ہے وہ طالبان کے آنے سے خاصا خوش دکھائی دیتاہے۔

افغانستان میں ہمیں کئی ایسے لوگ بھی ملے جو اردو جانتے تھے مگر ہمیں اردو میں انٹرویو دینے سے صاف انکار کرتے تھے، کہتے تھے اپنی زبان میں انٹرویو دیں گے۔ ہم سمجھنے سے قاصر رہے کہ اس کی وجہ اردو اور پاکستان سے مخاصمت ہے یا اپنی زبان سے حد درجہ محبت۔ مختصر یہ کہ ہم افغانستان سے محبت اور نفرت کے ملے جلے تاثرات لے کر لوٹے۔

مستقبل میں افغانیوں کے پاکستان میں رائے کا دارومدار طالبان حکومت کی کارکردگی پر بھی رہے گا۔ اگر افغانستان میں آسودگی لوٹ آئی، امن بحال رہا، بینک کھل گئے، کاربار چلنے لگے، لوگوں کی بے چینی ختم ہو گئی اور طالبان لوگوں کے دلوں میں گھر کر پائے تو پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں بھی رائے بہتر ہوجائے گی۔ اگر خدانخواستہ ایسانہ ہو پایا توافغان شہریوں کے ہاں پاکستان کے افغانستان کے لیے عالمی سیاسی کردار کو بھی شاید زیادہ سراہا نہ جا سکے۔