چند دن پہلے مری میں نیو ائیر مناتے پاکستانیوں کی ایک ویڈیو نظر سے گزری۔ بلند جگہ سے بنائی گئی اس ویڈیو میں نظر آنے والے ہجوم کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ کسی بڑے جلسے میں آئے ہوں یا کسی بات پر احتجاج کے لیے اکٹھے ہوئے ہوں یا پھر کسی مشہور گلوکار کے سٹیج کے سامنے کھڑے اس کی پرفارنس پر جھومنے کو تیار ہوں۔ یوں لگتا تھا آدھا پاکستان مری میں امڈ آیا ہے۔ اس ہجوم کو دیکھ کر چند سوال میرے ذہن میں پیدا ہوئے۔ سیاست کا تصور ٹھنڈے موسم والے پہاڑوں سے کیسے جوڑ دیا گیا ہے؟ سمندر، صحرااور دریا سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیوں نہیں کرتے۔
وہ آنکھ جو قدرتی حسن کی طرف مائل ہوتی ہے اسے تاحد نظر دِکھنے والی ریت کے ٹیلے کیوں راغب نہیں کرتے، انہیں صحرائوں میں گھنٹیاں بجاتے اونٹوں کے ریوڑ کیوں نہال نہیں کرتے۔ سطح آب پر ناچتی بڑی بڑی مچھلیاں گہرے سمندر میں تیرتے جہازکے صحن میں کھڑے سیاحوں کا دل کیوں نہیں لبھاتیں؟ روہی کی شام میں ڈوب جانے کا لطف پانے کا خیال ان فطرت کے دیوانوں کو کیوں نہیں آتا؟ تھر کی ریت میں ڈوبتے سورج کی آخری ہچکی دیکھنے کوئی کیوں نہیں آتا؟ کیوں سب مری کی طرف بھاگتے ہیں۔
سارا قصور شاید سیاحوں کا بھی نہیں۔ شاید انہیں بتایا نہیں گیا کراچی سے براستہ سڑک کاغان، ناران جاتے ہوئے راستے میں وادی سون سکیسر بھی پڑتی ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں سیاحوں کو بلاتی قدرتی کھبیکی جھیل کے رومانوی کنارے پر اگر وہ کیمپ لگا کر رات گزاریں اور اس رات میں جھیل پر آئی غیبی پریوں سے خاموشی کی زبان میں سرگوشیاں کریں تو شاید وہ جھیل انہیں اسلام آباد ہی کی جانب بڑھنے نہ دے اور اپنے رومان پرور ماحول کا اسیر بنا لے۔ بھلا ایسی رات کا بدل بھی کچھ ہو سکتا ہے۔
میں مانتا ہوں پہلے سہولیات ناکافی ہوا کرتی تھیں سیاحوں کو مختلف طرح کے واہمے لاحق ہو سکتے تھے۔ مگر اب تو پنجاب ٹورازم ڈیپارٹمنٹ نے اپنے گیسٹ ہائوسز اور موٹلز بنا دیے ہیں۔ جو کیمپنگ نہ کرنا چاہیں وہ اپنی فیملی کے ساتھ جھیل کنارے بنے ریسٹ ہائوس میں قیام کر سکتے ہیں۔ صفائی ستھرائی کا نظام ایسا ہے کہ دل خوش ہو جائے۔ یہاں وہ سب چیزیں دستیاب ہیں جو ایک سیاح کو درکار ہوتی ہیں۔ صرف کھبیکی جھیل ہی نہیں پوری سون سکیسر وادی ہی دلکش جھیلوں، آبشاروں اور چشموں کے شاندار نظاروں سے سجی ہوئی ہے۔ شاید سیاحوں کو اس کے بارے میں بتایا نہیں جا سکا۔ اسی علاقے میں سیاحوں کی دلچسپی کے اور بھی کئی مقام ہیں، کٹاس راج، ہزاروں سال کی تاریخ اپنے اندر سموئے کھڑا ہے، کلر کہار کی قدرتی جھیلیں، کھیوڑہ سالٹ مائنز اور نہ جانے کیا کیا۔
اس وقت پنجاب ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کی پوری توجہ جنوبی پنجاب پر ہے، حسان خاور کی ذاتی دلچسپی نے اس میں نئی روح پھوک دی ہے، فورٹ عباس سے لے کر بہاولپور اور روہی تک درجنوں قلعوں، محلات اور تاریخی عمارات سے سیاحوں کو متعارف کرایا جا رہا ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ اسی سرزمین پر بکھری پڑی ہے۔ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ خطہ کسی نعمت سے کم نہیں۔
ماضی میں سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث سیاح یہاں آنے سے کتراتے تھے۔ لیکن گذشتہ کئی برس سے تسلسل کے ساتھ ہونے والی چولستان جیپ ریلی نے اس علاقے کو دنیا بھر میں متعارف کرا دیا ہے، پنجاب ٹورازم کارپوریشن نے سیاحوں کے لیے قلعہ دراوڑ کے قریب ایک شاندار موٹل تعمیر کرایا ہے جو چند رو ز میں سیاحوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ وہ سیاح جو جو رات ٹھہرنا نہ چاہیں ا ن کے لیے بھی واش رومز کی تعمیر، کھانے کی دستیابی اور دیگر سہولیات فراہم کر دی گئی ہیں۔
بہاولپور کا نور محل دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہفتے میں تین دن اس کے وسیع و عریض لان میں ایک شاندار "لائٹ اینڈ سائونڈ شو" کا اہتمام ہوتا ہے۔ جسے دیکھ کرکوئی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چولستان کی ریت میں سیاحوں کے لیے قدرت نے بے مثال مناظر پیدا کر رکھے ہیں۔ مجھے انگریزوں کا وہ گروپ یاد آتا ہے جو چند سال پہلے روہی آیا تھا تو اس نے ریسٹ ہائوس میں رہنے سے انکار کر دیا تھااور ان کے لیے ٹورازم والوں نے صحرا کے ایک چھوٹے سے گھر کی چھت پر بستر لگا دیے تھے۔
وہ رات بھر آسمان کو تکتے رہتے اور یوں خوش ہوتے جیسے انہوں نے یہ منظرپہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔ مقامی سیاحوں کے ساتھ ساتھ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے غیر ملکی سیاحوں کے لیے جنوبی پنجاب ایک قیمتی خزانے سے کم نہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج سے پہلے کسی نے اسے ٹورازم پلیس کے طور پر مارکیٹ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ پاکستان کے محکمہ شماریات اور محکمہ سیاحت کے پاس کوئی اعداد وشمار موجود نہیں کہ کس سال میں کتنے غیر ملکی سیاحوں نے پاکستان کے کن کن علاقوں کو وزٹ کیا۔ ڈیٹا حاصل کیے بغیر سیاحوں کے رجحانات کا تجزیہ کرنا، عدم دلچسپی کا شکار ممالک تک اپنی آواز زیادہ موثر انداز میں پہنچانا اور ان کی ضرورت کے مطابق سہولیات پیدا کرنا ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے اس سلسلے میں ابھی حکومت کے کسی ادارے نے کام شروع نہیں کیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے سیاحت کو ایک انڈسٹری کے طور پر سمجھا اور اس کی اہمیت کو محسوس کیا۔ سیاحوں کو دعوت دینے سے پہلے سہولیات کی دستیابی اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت کو اس کا ادراک ہے، نئے نئے سیاحتی مقامات دریافت ہو رہے ہیں، بنیادی سہولیات کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ اب ایک قدم آگے بڑھ کر غیر ملکی سیاحوں کی توجہ حاصل کرنی ہو گی۔ اربوں ڈالر کی اس انڈسٹری کو صحیح معنوں میں انڈسٹری بنانے کے لیے دنیا بھر میں موجود مروجہ طریقوں کو بروئے کار لانا ہو گا۔ مقامی سیاحوں کو نئے نئے مقامات تک کھینچ کر لانا اور انہیں ان علاقوں کی خوبصورتی کا قائل کرنا ہو گا۔
سیاحت کو پہاڑوں کے علاوہ صحرائوں، دریائوں اور سمندروں تک پھیلانا ہو گا۔ اس سلسلے میں مقامی ٹور آپریٹرز اور ٹی ڈی سی پی مشترکہ طور پر کاوش کر کے سیاحوں کو نئے مقامات تک لے جا سکتے ہیں۔ نئے نئے آئیڈیا ز پر کام کرنا ہو گا، مثلاسکھر میں دریائے سندھ کے کنارے کو بلائنڈ ڈولفن دیکھنے کے شوقین افراد کے لیے ہی کراچی کے "دو دریا" جیسا ماحول دے دیا جائے یا گوادر کی میرین ڈرائیو جیسی ایک سٹرک مہیا کر کے کنارے پر "الیکٹرک پول" بنا کر بیٹھنے کے لیے خوبصورت بنچ لگا دیے جائیں تو دریا کا یہ خوبصورت کنارہ ہی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے لگے گا۔
پنجاب میں ٹورازم پہ شاندار کام ہو نے لگا ہے، خیبر پختونخواہ کی بھی اس معاملے پر بھرپور نظر معلوم ہوتی ہے، سندھ اور بلوچستان بھی اگر نیند سے جاگیں تو یہ انڈسٹری واقعی پاکستان کی ایک بڑی انڈسٹریز میں شامل ہو سکتی ہے۔