Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ehtesab Mumkin Hai?

Ehtesab Mumkin Hai?

مایوسی شام کے سائے کی طرح آنگن میں اتر رہی ہے۔ نا امیدی پہلے ہی سے آلتی پالتی مارے بیٹھی ہے، تاثر تقویت پا رہا ہے کہ احتساب کے نعرے کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہی نہیں۔ سیاسی شخصیات سے پیسے واپس لانے کی امید دم توڑ رہی ہے۔ کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے نام پر تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے لوگ منی لانڈرنگ، ٹی ٹیز اور جعلی اکاونٹس کے نام سے چڑنے لگے ہیں، جو لوگ نیب کے اعداد و شمار پر یقین بھی رکھتے ہیں انہیں بھی لگتا ہے کہ ملزم حکومت اور نیب سے زیادہ شاطر ہے، انہیں لگتا ہے رقم کی واپسی دیوانے کا خواب ہے اور بس۔

نئے نیب آرڈیننس کے بعد تو اُن لوگوں پر بھی مایوسی کے بادل چھائے ہیں جو نیب سے بحرحال کچھ نہ کچھ امید اب بھی لگائے بیٹھے تھے۔ اپنی تمام تر کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود نیب نے شہباز شریف منی لانڈرنگ کیس میں شاندار تفتیش کر رکھی ہے۔ عدالت میں جمع ہونے والی فائل کے تفصیلی جائزے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ نیب کی تفتیشی ٹیم نے ایک ایک بینک ٹرانزیکشن، 1998سے 2018 تک کے ڈکلیئیرڈ اثاثے، آمدن کی تفصیلات، ٹی ٹیز کا ریکارڈ، جعلی کمپنیوں کی تفصیلات، جعلی کمپنیوں سے شریف خاندان کے آفیشل اکائونٹ کے ساتھ ہونے والی ٹرانزیکشنز، بے نامی داروں کے اکائونٹس اور ان کی تمام تفصیلات۔ یہ سب نیب نے جس احسن انداز سے تیار کر کے عدالت کو مہیا کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ مگرتاثریہ ہے کہ نیب کسی سے کچھ نہیں نکلوا سکی، حکومت احتساب میں ناکام رہی۔ یہ تاثر کیوں پیدا ہوا اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

اس ضمن میں حکومت سے کچھ غلطیاں سر زد ہوئی ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ حکومت نے نیب کی انویسٹی گیشن کا ڈھونڈورا پیٹنے پر تو خوب توانائی صرف کی لیکن ان عدالتوں کی استعداد کاربڑھانے پر بالکل توجہ نہ دی، جہاں نیب نے اپنا کیس ثابت کرنا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تین سال میں نیب کے 110 گواہان میں سے صرف 12 کا بیان قلمبند ہو سکا۔ نیب کی فائل کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کیس میں شہباز شریف اور ان کے خاندان کا بچنا مشکل ہے مگر کیا یہ 2045میں ہو گا؟ تین ہفتے میں ایک سماعت ہو جاتی ہے، وہ بھی کبھی ہوتی ہے اور کبھی کسی وجہ سے نہیں ہو پاتی۔ ہمارے عدالتی نظام میں وکلاء کی صلاحیتوں کو اس نکتے پر بھی پرکھا جاتا ہے کہ وہ کیس کو لٹکانے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔

رانا ثناء اللہ کا انسداد منشیات میں چلنے والا کیس دیکھ لیں، مریم نواز کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس پر اپیل یا پھر شہباز شریف فیملی کا منی لانڈرنگ ریفرنس۔ عام تاثر یہ ہے کہ تاخیری حربوں کا استعمال حکمت عملی کا بنیادی جزو ہے۔ پراسکیوشن ٹیم ان تاخیری حربوں کے سامنے بند باندھنے میں مکمل ناکام ہے بلکہ اس پر متفکر بھی دکھائی نہیں دیتی۔ سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ حکومت نے احتساب کا نظام تیز کرنے کی غرض سے عدالتی نظام میں خامیاں دور کرنے اور سنجیدہ عدالتی ریفارمز لانے کے لیے کیا قدم اٹھایا ہے۔ نیب کی کارکردگی کتنی ہی متاثر کن کیوں نہ ہو موجودہ عدالتی نظام میں رہتے ہوئے احتساب کا عمل جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا ممکن ہی نہیں چاہے عمران خان احتساب کے نام پر ایک ہزار جلسے اور کیوں نہ کر لیں۔

کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے ہمارے صاحبان اقتدار کوئی ایسا نظام لانا ہی نہیں چاہتے جو شہباز شریف اور منی لانڈرنگ کرنے والے افراد کو سزا دلوا سکے کیونکہ ایسا نظام کل کو انہیں بھی گریبان سے پکڑ سکتا ہے۔ یہ فکر مندی ہمارے ہاں روایتی سیاست کرنے والے ہر شخص میں موجود ہوتی ہے۔ نیا نیب آرڈیننس اس کی تازہ مثال ہے۔ نیب کو دانستہ طور پر کمزور کرنا مستقبل میں خود کو آنے والی مصیبتوں سے محفوظ رکھنے کی ایک کوشش نہیں تو اور کیا ہے۔ نیب کے دانت نکال دیے گئے، خوف ختم کر دیا گیا، اختیارات لے لیے گئے۔ ذرا سوچیے جو ادارہ پورے اختیارات کے باوجود مختلف وجوہات کی بنا پر مطلوبہ نتائج نہیں دے پا رہا تھا وہ بے اختیار ہونے کے بعد کیا کرے گا۔ بجائے اس کے کہ ان وجوہات کو تلاش کیا جاتا جو شہباز شریف کیس کے منطقی انجام تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ تھیں، نیب کو مزید کمزور کر دیا گیا ہے۔ کیا کسی کو اس بات سے غرض ہے کہ وائٹ کالر کرائم پکڑنے میں اب کتنی دشواری ہو گی؟

جو لوگ شہباز شریف کے منی لانڈرنگ کیس میں کچھ دلچپسی رکھتے ہیں اور اس بات پر فکر مند ہیں کہ اب تک صرف 12 گواہان کے بیانات کو ہی کیوں قلمبند کیا جا سکا ہے، انہیں اس نئی پیش رفت سے بھی آگاہ کر دوں کہ کچھ عرصہ پہلے لاہور ہائیکورٹ نے نصرت شہباز کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے انہیں اشتہاری کی فہرست سے نکال دیا ہے اوربیرون ملک مقیم رہتے ہوئے ہی ان کے وکیل کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت دے دی ہے جس کے بعد اب پچھلے ہفتے نصرف شہباز پر فرد جرم عائد ہوئی ہے۔ اب اس کیس میں پیش رفت یہ ہے کہ نصرف شہباز پر چارج فریم ہونے کے بعد تمام 12 گواہان کا بیان نئے سرے سے قلمبند ہو گا اور نئے سرے سے جرح ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کیس تین سال پیچھے اُسی مقام پر جا کھڑا ہوا ہے جہاں سے شروع ہوا تھا۔ لکھنے والے نے سوچ سمجھ کر سکرپٹ لکھا اور بہترین حکمت عملی بنائی ہے۔

وہ لوگ جو احتساب کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، ان کی آس ٹوٹنے کے قریب ہے، تاثر یہ ہے کہ حکومت ناکام ہو گئی۔ سوشل میڈیا پر سوالوں کی بوچھاڑ ہو رہی ہے کہ کہاں ہیں وہ پیسے جو آپ نے واپس لانے تھے۔ حکومت کو ناکامی کے طعنے دیے جا رہے ہیں، وزراء کے لیے اب اس موضوع پر بات کر نا آسان نہیں رہا۔ لہذا دعووں اور نعروں کو چھوڑ کو عدالتی نظام میں سنجیدہ اصلاحات لانے کے لیے بڑا کام کرنا ہو گا۔ تبدیلی نعروں سے نہیں آتی۔ احتساب تقریروں سے نہیں ہوتا۔ عوام مایوس ہو گئے تو کس کی طرف دیکھیں گے؟