دو سال سے ہونے کو ہیں، اس بات کا فیصلہ نہیں ہو پایا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون پر حقائق جاننے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب حکومت کی طرف سے بنائی گئی جے آئی ٹی آئینی ہے یا غیر آئینی۔ کیا یہ جے آئی ٹی بنائی جا سکتی تھی یا نہیں، کیا اس جے آئی ٹی کو بنانے کے لیے پنجاب حکومت نے قانونی تقاضے پورے کیے یا نہیں، کیا یہ جے آئی ٹی کابینہ کی منظوری کے بعد بنائی گئی؟ کیا اس جے آئی ٹی کو بنانے کے لیے کابینہ سے منظوری لینا ضروری تھا بھی یا نہیں؟
تقریبا دو سال پہلے جب سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹائون کے تحقیقات کے لیے دوسری جے آئی ٹی تشکیل دی، تو کانسٹیبل خرم رفیق اورانسپکٹر رضوان قادر نے اس اقدام کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا اور موقف اپنایا کہ ایک جے آئی ٹی کے بعد دوسری جے آئی ٹی نہیں بنائی جا سکتی تھی۔ معاملہ عدالت کے پاس گیا تو عدالت نے دوسری جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کمرہ عدالت میں اس فیصلے پر اعتراض اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی موقف لیے بغیر فیصلہ کیسے سنایا جا سکتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ اس کے بعد احمد اویس دوبارہ عدالت میں پیش نہ ہو ئے اور ان کی جگہ یہ ذمہ داری ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ادا کرتے رہے جودو روز پہلے ہونے والی سماعت میں بھی موجود تھے۔ گذشتہ برس نئی جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک تو دیا گیا تھا لیکن پورا سال اس کیس میں پیش رفت نہ ہو سکی۔ کورونا کی وجہ سے اکا دکا سماعتیں ہوئیں اور سال گزر گیا۔ اس ضمن میں قابل ذکر سماعت 15 فروری 2021 کو ہوئی۔ لاہور ہائیکورٹ کے سات رکنی فل بینچ کی سربراہی جسٹس قاسم علی خان کر رہے تھے انہوں نے نئے سرے سے کیس کی تمام ابتدائی معلومات حاصل کیں، وکلا کے سامنے سات سوال رکھے اور فیصلہ کیا کہ 15 مارچ سے روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت ہوا کرے گی۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے متاثرین کے چہرے پر اطمینان نظر آیا بلکہ خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ چلیں دیر آید درست آید اب روزانہ سماعت ہو گی تو جلد انصاف ملے گا۔
پھر پندرہ مارچ بھی گزر گیا۔ اپریل کے آخری ہفتے میں کیس ایک بار پھر کاز لسٹ میں نظر آیا لیکن بینچ نہ بیٹھ سکا۔ جولائی میں جسٹس قاسم علی خان اپنی مدت مکمل کر کے رخصت ہوئے تو نئے چیف جسٹس امیر بھٹی کے آنے کے بعد ایک بار پھر اس کیس میں تیزی آئی ہے اور ایک مہینے میں چار سماعتیں ہوئی ہیں۔
کانسٹیبل خرم رفیق اور انسپکٹر رضوان قادر کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کا موقف ہے کہ مصطفی امپیکس کیس کی روشنی میں یہ ضروری تھا پنجاب حکومت کابینہ کی منظوری کے بعد نئی جے آئی ٹی تشکیل دیتی جبکہ 2 دسمبر 2019 کی کیبنیٹ میٹنگ میں اس کی تشکیل کی کوئی منظوری نہیں ہوئی اور یہ کہ جے آئی ٹی پہلے تشکیل دے دی گئی کابینہ سے منظوری بعد میں لی گئی۔
جو لوگ مصطفی امیپیکس کیس کو نہیں جانتے ان کے لیے اتنا کافی ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کیس میں یہ تشریح کر دی تھی کہ حکومتی فیصلے سے مراد کابینہ کا فیصلہ ہو گا۔ یعنی جو فیصلہ کابینہ سے منظور ہو گا وہی حکومتی فیصلہ تصور کیا جائے گا۔ اعظم تارڑ یہی دلیل عدالت میں استعمال کر رہے ہیں کہ مصطفی امیپیکس کیس کی روشنی میں کابینہ کی منظوری کے بغیر تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس لیے اسے کام نہ کرنے دیا جائے۔ دوسرا وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ 18 دسمبر 2018 کے سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہیں دوسری جے آئی ٹی بنانے کا حکم موجود نہیں ہے بلکہ عدالت نے اسے سوال کی صورت میں چھوڑا تھا۔
دوسری طرف عوامی تحریک کے وکیل اظہر صدیق یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مصطفی امیپیکس کا اطلاق جے آئی ٹی کی تشکیل کے معاملے پر نہیں ہوتاورنہ ماضی میں بنائی گئی تمام جے آئی ٹیز کی کیا حیثیت رہے گی۔ دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ اگر اطلاق ہوتا بھی ہے تو بھی مذکورہ جے آئی ٹی کابینہ کے فیصلے سے ہی بنائی گئی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ دستایزات انہوں نے عدالت کے سامنے رکھی ہیں جس میں 7جنوری 2020 کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں یہ منظوری دیکھی جا سکتی ہے اور 20 جنوری 2020کو جاری ہونے والے میٹنگ منٹس سے یہ واضح بھی ہے کہ پرانی تاریخوں میں منظوری لی گئی ہے۔
اب لاہور ہائیکورٹ نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد وکلا کے سامنے تین سوال رکھے ہیں جن کے تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پہلا یہ کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ سن سکتی ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا جے آئی ٹی بنانے کی منظوری کابینہ سے لی گئی؟ اورتیسرا یہ کہ کیا چالان جمع ہوجانے کے بعد از سر نو تفتیش ہو سکتی ہے؟
عوامی تحریک کے وکیل اظہر صدیق کا ایک اور موقف بھی ہے کہ نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے سپریم کورٹ کے حکم کو کسی نے سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا۔ صحیح فورم یہی تھا کہ کانسٹبل خرم رفیق اور انسپکٹر رضوان قادر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظر ثانی دائر کرتے، سپریم کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیسے کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ اعظم نذیر تارڑ اور ان کی ٹیم اپنے اس عمل کا دفاع کیسے کرتے ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں کیا جواب جمع کراتے ہیں۔
سانحہ ماڈل ٹائون کو رونما ہوئے 7 برس بیت گئے ابھی ہم اسی بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ نئی جے آئی ٹی بن سکتی ہے یا نہیں۔ اگرچہ لاہور ہائیکورٹ کا سات رکنی بینچ اب اس معاملے کو جلد نمٹانا چاہتا ہے مگر دلی اب بھی دور ہے۔ نہ جانے کب جے آئی ٹی کی تشکیل آئینی قرار پائے گی، کب وہ اپنا کام کرے گی، کب حقائق سامنے آئیں گے، کب مقدمہ چلے گا، کب ٹرائل ہو گا، کون کون سی نئی درخواستیں اس دوران دائر ہوں گی اور ان پر کتنا وقت لگے گا۔ کون جانے یہ سب دیکھنے کے لیے بسمہ زندہ رہے گی بھی یا نہیں۔