Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kya Main Pagal Hoon?

Kya Main Pagal Hoon?

پیرا نویا(Paranoia) ایک ایسی نفسیاتی بیماری کا نام ہے جس میں کسی شخص کو کثرت سے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہر کوئی اس کے خلاف سیاست کر رہا ہے، اسے اپنے گروہ، کھیل، منصوبے یا نوکری سے باہر کرنا چاہتا ہے، اسے لگتا ہے ہر کوئی اسے گھور رہا ہے اور اسے اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہا ہے، اسے لگتا ہے کہ اسے سیاست کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جانے کی پہلی نشانی ہے۔

دوسری نشانی مسلسل اداس رہنا ہے۔ اداسی کاکبھی کبھار زندگی میں آ جانا فطری بات ہے لیکن زیادہ دیر تک موجود رہنا نفسیات پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہو چکے ہوں تو اداسی اور مایوسی پیچھا نہیں چھوڑتی اور جب کوئی زیادہ لمبے عرصے تک اداسی کا شکار ہو تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔

مزاج میں اچانک تبدیلی یا موڈ کا غیر مستحکم رہنا بھی نفسیاتی مسائل سے دوچار ہونے کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ غیر متوقع طور پر اچانک غصے میں آ جانایا سنجیدہ چیزوں کوغیر سنجیدگی سے لینا جیسے مسائل بھی اچھی علامات میں سے نہیں۔

چوتھی بڑی نشانی سماجی طور پر دوری اختیار کر لینا ہے۔ آپ لوگوں سے گھلنا ملنا کم کردیں۔ خود کو گھر میں بند رکھیں، زیادہ وقت اکیلے گزارنا چاہیں، ٹی وی زیادہ دیکھنے لگیں، محافل میں جانے سے گریز کریں، نئے دوست بنانے اور پرانوں سے ملنے کی خواہش پیدا نہ ہو تو بھی سمجھیے کہ آپ نفسیاتی مسائل کے گھیرے میں ہیں۔

اور نفسیاتی مسائل کی پانچویں بڑی نشانی کھانے اور سونے کی عادات میں تبدیلی کی ہے۔ آپ رات بھر جاگتے رہیں، دن میں سوتے رہیں، کھانے کا کوئی معمول نہ ہو، ضرورت سے زیادہ یا کم کھانے لگیں۔ سونے کے اوقات میں تبدیلی کی وجہ سے دفتر سے چھٹیاں زیادہ ہونے لگیں، کھانے کے معمولات میں تبدیلی کی وجہ سے وزن بڑھنے لگے یا بہت کم ہونے لگے تو سمجھ جائیے کہ آپ کو ایک ماہر نفسیات کی ضرورت ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا 450 ملین افراد ذہنی صحت کے امراض کا شکار ہیں۔ صرف کینیڈا ہی میں 6.7 ملین افراد کونفسیاتی مسائل کا سامنا ہے یعنی ہر دو میں سے ایک شہری ذہنی صحت کے مسئلے سے دوچار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریبا پانچ کروڑ لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں لیکن ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ اس مرض میں مبتلا ہونے کی حقیقت سے انکار ہے۔ پاکستان میں ماہر نفسیات سے رجوع کرنے کے مشورے کو نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے جیسے کوئی اسے پاگل کہہ رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ماہرین نفسیات کی تعدادصرف پانچ سو کے لگ بھگ ہے یعنی پانچ کروڑ مریضوں کے لیے صرف پانچ سو ڈاکٹرز۔

زیادہ تشویش کی بات یہ کہ پاکستان میں بچے بھی بڑی تعداد میں ایسے مسائل کا شکار ہو رہے ہیں جو ذرا سا بڑا ہونے پر انہیں نفسیاتی مسائل کا شکار کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جو بچے سات گھنٹے تک کسی بھی طرح کی الیکڑانک سکرین کا استعمال کرتے ہیں وہ پانچ طرح کے مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔

ایسے بچے کسی بھی معاملے پر زیادہ دیر کے لیے فوکس نہیں کر پاتے۔ جلدی فوکس آوٹ ہو جانے کی وجہ سے ان کی مختلف چیزیں سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ خود کو باقیوں کی نسبت کمزور اور نکما محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ایسے بچے نفسیاتی طور پر متوازن نہیں ہوتے۔ مزاج میں تلخی پیدا ہو جاتی ہے۔ رویہ خراب ہونے کی وجہ سے مختلف طرح کے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچے زیادہ دوست نہیں بناتے۔ وہ زیادہ وقت اپنے گیجیٹس کے ساتھ گزارتے ہیں۔ دوست نہ بنانے کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ تنہائی پسند ہو جاتے ہیں جو آگے چل کر ان کے نفسیاتی مسائل کی وجہ بنتے ہیں۔ ایسے بچے اپنے ٹاسک مکمل نہیں کر پاتے اور ناکامی کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایسے بچے اپنی جسمانی صحت پر توجہ نہیں دیتے اور اپنی باڈی شیپ خراب کر بیٹھتے ہیں جس سے بھی ان کے مزاج پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ایک اور سٹڈی یہ بتاتی ہے کہ وہ بڑے جو خود نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں ان کے بچوں میں ایسے امراض کا شکار ہو جانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ عام طور پر بچے تین طرح کے حالات سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ ایک، ایسے ناخوشگوار واقعات جنہیں وہ اپنے بڑوں میں رونما ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اورپھر اسے کا ذہنی اثر قبول کرتے ہیں۔ دو، ایسے بچے جو اپنی خاندان میں کسی بھی قسم کا تشدد ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ تین، ایسے بچے جن کے اطراف میں منفی باتیں یا واقعات کثرت سے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بچوں کو نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ بڑوں کے نفسیاتی مسائل کا حل نکالا جائے اور اس کے لیے انہیں سب سے پہلے سیلف اسیسمنٹ ٹیسٹ کرنا ہو گا جس کے پانچ پوائنٹس شروع میں بیان کیے گئے ہیں۔

ڈپریشن، مایوس اور اداسی کا شکار ہو جانے سے بچنا زیادہ مشکل نہیں اور اگر کوئی اس کا شکار ہو چکا ہے تو بھی اس سے باہر آناناممکن نہیں۔ گھر پہ دوستوں کی محفل سجانا، دوستوں کی دعوت قبول کرنا اور انہیں اکسانا کہ باری باری سب دوست ایسی دعوتوں کا اہتمام کریں، میرے نزدیک سب سے سود مند طریقہ ہے۔ دوسرا راستہ اپنے لیے معمولات کا طے کرناہے۔ زیادہ نہ سہی صرف سونے، جاگنے، کھانے اور دفتر جانے کے اوقات کو ٹھیک کر لیا جائے تو زندگی میں ایسا نظم پیدا ہوتا ہے جو ڈپریشن سے نکلنے میں مدد دیتا ہے۔