کیا وزارت اطلاعات میں تبدیلی سے حکومت اور میڈیا کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے؟ کیا یہ تبدیلیاں واقعی تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کی گئی ہیں؟ کیا فردوس عاشق اعوان پر بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ میڈیا اور حکومت کو قریب نہ لا سکیں؟ ان تینوں سوالو ں کے جواب مل جائیں گے اگریہ معلوم ہو جائے کہ کیاوزیر اعظم عمران خان کو میڈیا سے تعلقات بہتر کرنے میں دلچسپی بھی ہے؟
حال ہی میں وزیراعظم نے سوشل میڈیا کے نمائندوں اور یو ٹیوبرز کے ساتھ دو ملاقاتیں کیں اور تیسری ملاقات مئی کے پہلے ہفتے میں ہونے جا رہی ہے۔ پہلی دونوں ملاقاتوں کے شرکاء طویل سیشن کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ وزیر اعظم اس بات کے قائل ہو چکے ہیں کہ مین سٹریم میڈیا بے وقعت ہو چکا ہے، میڈیا ایجنڈے پر چلتا ہے، میڈیا اپنی اہمیت کھو چکا ہے، اینکرز کی ساکھ خراب ہو چکی ہے، انہیں کوئی دیکھنا پسند نہیں کرتا، اس میڈیا کا کوئی مستقبل نہیں اور یہ کہ آنے والا دور ڈیجیٹل میڈیا کا ہے۔ سوشل میڈیا کے نمائندوں کا یہ مشاہدہ اس لیے درست معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے پچھلے کچھ عرصے میں یو ٹیوبرز سے ملاقات کو نہ صرف خصوصی اہمیت دی بلکہ اپنے کچھ وعدوں سے غیر اعلانیہ طور پر اسے مین سٹریم میڈیا کے برابر کھڑا کرنے کاارادہ بھی ظاہر کیا۔ ڈیجیٹل میڈیا کو اشتہارات دینے اور انہیں پی آئی ڈی کی جانب سے پریس کارڈ جاری کرنے جیسے اقدامات پر غور سے بھی یہی لگتا ہے کہ وزیر اعظم ڈیجیٹل میڈیا کو مین سٹریم میڈیا کے متوازی کھڑا کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ ایسے میں مین سٹریم میڈیا کے ساتھ تعلقات کی بہتری حکومت کی ترجیح معلوم نہیں ہوتی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا سے خوشگوارتعلقات اگر حکومت کی ترجیح ہے ہی نہیں تو وزارت اطلاعات میں اہم تبدیلیاں کیوں کی گئی ہیں۔
شبلی فراز کے بارے میری رائے تعریفوں کے پُل باندھنے اور انہیں معتدل مزاج قرار دے کر میڈیا کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی امید لگانے والوں سے مختلف ہے۔ نہ تو وہ بہت شریں زبان ہیں نہ بہت ملنسار۔ اس کے برعکس وہ ذود رنج بھی ہیں اور جارح مزاج بھی۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان کی پالیسی وزیر اعظم سے مختلف کیسے ہو سکتی ہے۔ جب وزیر اعظم کا ذہن میڈیا کے حوالے سے بہت واضح ہے تو شبلی فراز کے اہداف مختلف کیسے ہو سکتے ہیں؟ مختصر یہ کہ شبلی فراز سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا محض خام خیالی ہو گی کہ اصل پالیسی تو وزیر اعظم کی ہے۔
سوشل میڈیا کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے ایک سنگین غلطی کی جارہی ہے۔ فواد چودھری کہا کرتے تھے کہ میڈیا کا بزنس ماڈل ہی ٹھیک نہیں کیوں کہ یہ ماڈل حکومتی اشتہارات پر انحصار کرتے ہوئے وجود میں لایا گیا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ان اشتہارات کی بنیاد پر ماضی کی حکومتیں اپنا بیانیہ بنواتی رہی ہیں، اپنے حق میں خبریں اور مضامین چھپواتی رہی ہیں، یوں ان کے بقول اس میڈیا نے اپنی ساکھ برباد کر لی۔ لیکن اب ایک بار پھر ایک نیا بزنس ماڈل اس بنیاد پر استوار ہونے والا ہے۔ یوٹیوبرز کو اشتہارات ملیں گے اور نئی انڈسٹری وجود میں آئے گی۔ اب بھی تو یہی ہو گا، اشتہارات کے حصول کے لیے یو ٹیوبرز حکومت کے حق میں ویڈیوز بنائیں گے اور مال کمائیں گے۔ بہت سے سرمایہ دار اس انڈسٹری میں سرمایہ کاری کریں گے، آنے والی حکومتوں میں اشتہارات کی بندر بانٹ کے لیے ماضی جیسے حربے استعمال ہوں گے۔ نتیجے میں سوشل میڈیا بھی ویسا ہی ہو جائے گا جیسا کہ اب مین سٹریم میڈیا پر الزام لگایا گیا ہے۔ پھر مستقبل میں کوئی حکومت اسے فلاپ ماڈل قرار دے کر اشتہارات کھینچ لے گی تو ایک اور انڈسٹری دھڑام سے زمین پر آ گرے گی۔
پچھلے دنوں حکومت کی جانب سے اخبارات کے اشتہارات کی واجب الادا رقم کی ادائیگی کے حوالے سے ایک اجلاس ہوا جس میں کئی اخبارات کے مالکان شریک ہوئے۔ اس اجلاس کی صدارت وفاقی وزیر شفقت محمود نے کی۔ بہت سے لوگوں کے سامنے پہلی مرتبہ یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ اس حکومت نے اخبارات کو 2ارب 65 کروڑ روپے کے اشتہارات دیے۔ جب پوچھا گیا کہ یہ اشتہارات کن اخبارات کو دیے گئے تو ایسے گھوسٹ اخبارات کی فہرست سامنے آئی جن کے نام ہی کسی نے نہ سنے تھے۔ خود شفقت محمود کے لیے بھی یہ بات شاید حیرت کا باعث بنی ہو۔ اجلاس میں شریک بیرسٹر شہزاد اکبر نے ان اخبارات کو اشتہارات جاری کرنے کے حوالے سے انکوائری کا عندیہ بھی دیا۔ اس سے تاثر یہ ملا کہ فردوس عاشق اعوان بدعنوانی میں ملوث رہی ہیں۔ یہ انکوائری جلد ہو جانی چاہیے تا کہ اگر کرپشن ہوئی ہے تو بھی سامنے آئے اور نہیں ہوئی تو خواہ مخواہ فردوس عاشق کے نام پر "تاثر" کا دھبہ نہ لگا رہے۔
اس حکومت میں یہ پہلی بار نہیں ہوا کے کسی وزیر یا مشیر کے جانے کے بعد اس پر کرپشن کا الزام لگا ہو۔ عامر کیانی کو ہٹایا گیا تو کرپشن کے الزامات لگے، تحقیقات نہیں ہوئیں۔ بابربن عطا کو ہٹایا گیا، کرپشن کے سنگین الزامات لگائے گئے، تحقیقات نہیں ہوئیں۔ جہانگیر ترین بھی کرپشن کے الزامات کے ساتھ دور کر دیے گئے۔ جس روز فردوس عاشق اعوان کو ہٹایا گیا، پی ٹی وی میں کی جانیوالی انکی مبینہ بے ضابطگیوں اور اختیارات سے تجاوز کے حوالے سے رپورٹرز کو ٹکرز جاری کیے گئے اور کہا گیا کہ اسے ذرائع سے چلا یا جائے۔ ہر وزیر یا ذمہ دار کو گھر بھیجنے کے بعد اس کی کردار کشی ضروری ہے کیا؟ یہاں حکومت پر سوال اٹھتا ہے کہ اگر کسی نے کرپشن کی ہے تو انکوائری کر کے اسے سزا کیوں نہ دی گئی اور اگر نہیں کی تو یہ تحقیقات کیوں نہیں کی گئیں کہ ان کی کردار کشی کے لیے پرائم منسٹر ہائوس سے مہم چلانے کا کام کون کرتا ہے؟
مختصر یہ کہ میڈیا کے حکومت سے تعلقات تبھی ٹھیک ہو سکتے ہیں جب وزیر اعظم عمران خان خود ایسا چاہیں۔ فی الوقت یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ ایسا چاہیں گے۔